روسی حکومت نے واضح کیا ہے کہ وہ امریکہ اور یورپی یونین کے مطالبات کے باوجود کرائمیا کا کنٹرول یوکرین کے حوالے نہیں کرے گی۔
روسی حکومت کے مرکز 'کریملن' کے ایک ترجمان دمیتری پیسکوو نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرائمیا پر کسی کا قبضہ نہیں بلکہ وہاں کے عوام نے اپنی مرضی سے روس کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ کرائمیا اب روسی وفاق کا ایک حصہ ہے اور روس کے داخلی معاملات پر عالمی برادری کو تبصرے نہیں کرنے چاہئیں۔
یوکرین میں گزشتہ برس روس نواز حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد یوکرین کے اس نیم خود مختار علاقے کی اکثریتی آبادی نے یوکرینی حکومت کے خلاف بغاوت کردی تھی اور ایک ریفرنڈم کے ذریعے روس کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔
بحیرۂ اسود کےکنارے واقع اس جزیرہ نما علاقے کے ساتھ روس کا زمینی رابطہ نہیں ہے لیکن یہاں سوویت دور سے روسی بحریہ کا ایک اڈہ موجود تھا جہاں تعینات روسی فوجیوں نے کرائمیا کی یوکرین سے علیحدگی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
روسی پارلیمان نے 21 مارچ کو کرائمیا کو روسی وفاق میں ضم کرنے کی منظوری دیدی تھی جس کے بعد اس علاقے کو باضابطہ طور پر روس میں شامل کرلیا گیا تھا۔
یوکرین، امریکہ اور یورپی ممالک کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق کو تسلیم نہیں کرتے لیکن ماسکو حکومت کئی بار واضح کرچکی ہے کہ کرائمیا کے اب دوبارہ یوکرین کے پاس جانے کا کوئی امکان نہیں۔
پیر کو واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے کہا تھا کہ جب تک کراِئِمیا پر روس کا قبضہ برقرار ہے امریکہ ماسکو کے خلاف اقتصادی پابندیاں برقرار رکھے گا۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موغیرینی نے بھی حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ 28 ملکی یورپی اتحاد کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق کو تسلیم نہیں کرے گا اور روس پر عائد اقتصادی پابندیاں برقرار رکھی جائیں گی۔
لیکن کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق کے بعد صدر ولادی میر پیوٹن کی اندرونِ ملک حمایت میں اضافہ ہوا ہے جنہوں نے کرائمیا کے الحاق کے وقت کہا تھا کہ "روس کو اپنا حق مل گیا ہے"۔
کرائمیا میں روسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ سوویت یونین کے صدر خردشیف نے 1954 ءمیں کرائمیا یوکرین میں شامل کردیا تھا جس سے قبل یہ سوویت یونین کاحصہ تھا۔