خیبر پختونخواہ کے ارکان اسمبلی کا پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج

پرویز خٹک نے اپنے مطالبات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا صوبہ سب سے زیادہ اور سستی پن بجلی پیدا کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود اس کے عوام کو طویل لوڈشیڈنگ کی تکلیف برداشت کرنی پڑی رہی ہے۔

شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں برسر اقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے ارکان اسمبلی نے صوبے میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ سمیت دیگر مسائل پر منگل کو اسلام آباد میں پارلیمان کے سامنے احتجاج کیا جو وفاقی حکومت کے وزیر کی یقین دہانیوں کے بعد ختم کر دیا گیا۔

شدید بارش کے باوجود صوبائی ارکان اسمبلی وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی قیادت میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر جمع ہوئے اور صدائے احتجاج بلند کی۔

پرویز خٹک نے اپنے مطالبات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا صوبہ سب سے زیادہ اور سستی پن بجلی پیدا کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود اس کے عوام کو طویل لوڈشیڈنگ کی تکلیف برداشت کرنی پڑی رہی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

خیبر پختونخواہ کے ارکان اسمبلی کا پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج

"ہم اس کو نہیں مانتے، دوسرا ہمیں اقتصادی راہداری منصوبے کے روٹ پر اعتراض ہے ہمیں پتا چلا ہے کہ یہ ہزارہ سے گزار کر پنجاب لے جا رہے ہیں ہم یہ کہتے ہیں اسے ڈیرہ اسماعیل خان سے گزارو یہ چھ سو کلومیٹر کم (فاصلہ) ہو گا۔"

صوبائی وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے صوبے کو بجلی کی پیداوار کی مد میں اربوں روپے کے بقایاجات بھی اب تک ادا نہیں کیے گئے اور یہ صوبے سے ناانصافی کے مترادف ہے۔

بعد ازاں پرویز خٹک کی پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف سے ملاقات ہوئی جنہوں نے صوبے کے مسائل کے حل کے لیے متعقلہ وزارت اور محکموں سے بات کرنے کی یقین دہانی کروائی۔

خواجہ آصف نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ وہ بقایا جات کے ادائیگی سے متعلق وفاقی وزیرخزانہ سے ملاقات کریں گے اور دیگر مسائل پر بھی ایک دو ہفتوں میں مذاکرات کریں گے۔

"وزیراعظم نے اقتصادی راہداری کے روٹ سے متعلق تمام پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس طلب کر رکھا ہے اس میں تمام تحفظات پر غور ہو گا اور اس کے علاوہ بھی جو خیبر پختونخواہ کے مسائل ہیں ان پر میں یقین دلاتا ہوں ہم بات کریں گے۔"

پاکستان کو حالیہ برسوں میں توانائی کے شدید بحران کا سامنا رہا ہے جس کی وجہ سے ملک میں طویل لوڈشیڈنگ کی جاتی رہی ہے۔ حالیہ مہیںوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں حکومت نے بجلی کی پیداوار کے نئے منصوبوں کا آغاز تو کیا ہے لیکن ان سے پیداوار شروع ہونے میں بھی حکام کے بقول کم ازکم دو سے تین سال کا عرصہ لگے گا۔

وفاقی حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو پہلے سے زیادہ اختیارات حاصل ہو چکے ہیں اور انھیں چاہیے کہ وہ اپنے طور پر بجلی کے پیداواری منصوبے لگائیں۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ کا اس پر کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے ہاں ایک ہزار میگاواٹ کا منصوبہ شروع کیا ہے لیکن ان کے بقول وفاقی حکومت ان کے صوبے کا حق انھیں دے نا کہ وہ ان سے ان کی کارکردگی پر سوال کرے۔