کوہستان ویڈیو اسکینڈل میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والے افضل کوہستانی کے اہل خانہ نے قتل سے متعلق ایف آئی آر پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا ہے۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو اسکینڈل کی وجہ سے 22 بچے یتیم ہو چکے ہیں اور خاندان کے دیگر افراد کی زندگی کے لیے اب بھی خطرات موجود ہیں۔
کوہستان ویڈیو اسکینڈل نے انصاف کی تلاش میں سرگرداں افضل کوہستانی کی جان لے گیا۔ اس سانحہ کی وجہ سے پانچ خواتین اور چار مرد قتل ہو چکے ہیں۔ آخری قتل ہونے والا شخص افضل کوہستانی تھا جو اس قتل و غارت گری کے خلاف سرگرم تھا۔
اسلام آباد میں منعقدہ نیشنل کمشن فار ہیومن رائٹس کے اجلاس میں افضل کوہستانی کے قتل کے معاملے پر بات کی گئی۔، سات بھائیوں میں سے اب تین بھائی زندہ رہ گئے ہیں۔
اجلاس میں شریک افضل کے بھائی بن یاسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہمیں کہیں سے انصاف ملتا نظر نہیں آ رہا۔ پولیس نے اپنی مرضی کی ایف آئی آر درج کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افضل کوہستانی انصاف کی تلاش میں اپنی جان سے گیا۔ مقامی پولیس ہماری کوئی مدد نہیں کر رہی اور افضل کے قتل کے بعد ہماری مرضی کے خلاف مقامی ٹریفک اہل کار کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے جبکہ ہم قاتلوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس کیس میں ہمارے بھانجے کو گرفتار کیا گیا جو اب تک پولیس کی حراست میں ہے۔
اس ایک موبائل ویڈیو کی وجہ سے 9 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں جبکہ باقی افراد کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
بن یاسر کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے میں اپنے گھر سے باہر بھی نہیں نکل پار رہا۔، اس صورت حال کی وجہ سے خاندان کے تمام افراد شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔، انہوں نے تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔
اجلاس میں شریک این سی ایچ آر کے ممبر چوہدری شفیق نے کہا کہ ایبٹ آباد کے ڈی سی او سے افضل کوہستانی قتل کیس کی رپورٹ مانگی گئی ہے۔ رپورٹ آنے کے بعد ہیومن رائٹس کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی ایبٹ آباد جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم افضل کوہستانی قتل کیس میں جوڈیشل انکوائری کے حق میں ہیں۔
2012 میں ضلع کوہستان کے علاقے پالس میں شادی کی ایک تقریب کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں چار لڑکیوں کی تالیوں کی تھاپ پر دو لڑکے روایتی رقص کر رہے تھے۔
ویڈیو میں رقص کرنے والے لڑکوں کے بھائی افضل کوہستانی نے دعویٰ کیا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکیاں بازغہ، سیرین جان، بیگم جان، آمنہ اور ان کی کم عمر مددگار شاہین کو ذبح کر کے قتل کر دیا گیا۔
اس معاملہ پر انسانی حقوق کی تنظیموں کے اجتجاج کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس افتخار چوہدری نے از خود نوٹس کے تحت عدالتی کمشن قائم کیا تھا۔ کمیشن کی رپورٹ میں لڑکیوں کو زندہ قرار دیا گیا تھا مگر انسانی حقوق کی کارکن اور کمشن کی ممبر فرزانہ باری نے رپورٹ سے اختلاف کرتے ہوئے عدالت میں واقعہ کی مکمل انکوائری کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔
محمد شعیب کی سربراہی میں قائم کمشن نے اپنی رپورٹ میں لڑکیوں کے زندہ ہونے پر شک کا اظہار کرتے ہوئے فرنزک تحقیقات کی تجویز دی تھی جس پر سرپم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے، جس کی سربراہی جسٹس اعجاز افضل کر رہے تھے پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ جوڈیشل آفیسر محمد شعیب کی پیش کردہ رپورٹ کی روشنی میں تحقیقات مکمل کر کے عدالت میں رپورٹ پیش کرے۔
جسٹس اعجاز افضل کے ریٹائر ہونے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس سال کے ابتدائی دنوں میں مقدمے کی سماعت کی تھی جس میں خیبر پختونخوا پولیس نے تسلیم کیا کہ تین لڑکیاں قتل ہو چکی ہیں اور لواحقین نے بیان حلفی دیا ہے کہ دو لڑکیاں زندہ ہیں اور انہیں پیش کر دیا جائے گا۔
اس واقعہ کے بعد افضل کوہستانی کے تین بھائیوں کو قتل کر دیا گیا اور اب حال ہی میں افضل کوہستانی کو بھی گولی مار دی گئی۔ ان کے خاندان کے باقی افراد اپنے تحفظ کے لیے اپیل کر رہے ہیں، لیکن ایک کانسٹبل کی سیکورٹی کے سوا حکومتی سطح پر اب تک ان کی کوئی مدد نہیں کی جا سکی۔