امریکہ نے سعودی عرب کے 17 افسروں پر استنبول، ترکی میں 2 اکتوبر کو واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خشوگی کی ہلاکت میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر ان کے خلاف پابندیوں کا اعلان کردیا ہے۔
یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی جب سعودی عرب نے یہ تردید کرتے ہوئے کہ ولی عہد شہزادے محمد بن سلمان نے قتل کا حکم دیا تھا، اعلان کیا کہ وہ خشوگی کے قتل میں ملوث پانچ افراد کے لیے سزائے موت کی درخواست کر رہا ہے۔
سعودی جرنلسٹ اور امریکی رہائشی جمال خشوگی کی ہلاکت کے چھ سے زیادہ ہفتوں کے بعد امریکہ نے 17 سعودی عہدے داروں کو، جو شاہی عدالت اور سعودی حکومت کے ارکان ہیں، خشوگی کی ہلاکت میں ملوث ہونے کی بنا پر ان کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوریٹ سے پوچھا گیا کہ آیا ولی عہد شہزادے محمد بن سلمان سمیت سعودی عرب کے اعلیٰ ارباب اقتدار کے خلاف مزید اقدامات سامنے آئیں گے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جو اعلان کیا ہے ہم اسے پہلا اچھا قدم قرار دیتے ہیں۔ یہ درست سمت کی جانب ایک قدم ہے۔ یہ ابتدائی چھان بین کا ایک نتیجہ ہے۔ یہ اہم ہے کہ وہ اقدامات مکمل احتساب تک جاری رہیں۔
سعودی وزیر خارجہ عدل الجبیر نے کہا کہ سعودی عرب میں روزانہ کی کارروائیوں کے انچارج شخص کا قونصلیٹ میں ہلاکت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ قطعی طور پر، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ درحقیقت امریکہ میں قومی سلامتی کے مشیر نے یہ کہا ہے، یہ ایک شر پسند کارروائی تھی۔ ہمیں اس بارے میں بہتر ادراک ہے کہ وہاں کیا ہوا تھا، یہ افراد کی جانب سے اپنے اختیار سے تجاوز اور اپنے مینڈیٹ سے آگے تک جانے کا معاملہ تھا۔ اور ان افراد نے ایک شديد غلطی کی تھی اور انہیں اس غلطی کا خمیازہ بھگتنا ہو گا۔
سعودیوں نے تسلیم کیا کہ خشوگی کو ہلاک کیا گیا اور اس کی لاش کے ٹکڑے کیے گئے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس کی باقيات کہاں ہیں۔ نقادوں نے، جن میں ترک وزیر خارجہ مولود جاویش اوغلو شامل ہیں، کہا ہے کہ سعودی پراسیکیوٹر کے اقدامات کافی نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کے بیان میں، کہا گیا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف اقدامات کیے گئے ہیں جنہوں نے ہلاکت کا حکم دیا تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ وہ تمام اقدامات مثبت ہیں لیکن ناکافی ہیں۔ جنہوں نے اس کا حکم دیا تھا اور اس قتل کا ارتکاب کیا تھا۔ انہیں بھی منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ ریاض کو امریکی اسلحے کی خریداریوں کا فیصلہ کرتے ہوئے اس ہلاکت کو پیش نظر رکھیں گے۔
کچھ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکہ کو عالمی معیشت کے لیے سعودی اہمیت کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے اور کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہیے جو سلطنت کو عدم استحكام سے دو چار کر دے۔
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے ڈیوڈ پولک کا کہنا ہے کہ ہمارا یہ بھی خیال ہے کہ سعودی عرب میں محمد بن سلمان کا متبادل بہت غیر یقینی ہے اور وہ بہت بدتر ہو سکتا ہے۔
انسانی حقوق کے علمبردار وں کا کہنا ہے کہ کسی قونصلیٹ میں ایک صحافی کا قتل ایک ریاستی دہشت گردی ہے اور اس کا حکم امکانی طور پر اعلیٰ ترین درجوں سے دیا گیا تھا، اور وہ اس وحشیانہ ہلاکت اور لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر فیصلہ کن امریکی اور بین الاقوامی رد عمل کی اپیل کر رہے ہیں۔