امریکہ سے جوہری معاملات کےسوا اور کوئی بات نہیں ہوگی، خامنہ ای

فائل

خامنہ ای کے بقول دیگر معاملات پر گفتگو کے نتیجے میں امریکہ کو ایران پر اثر انداز ہونے اور اس پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا موقع مل جائے گا جو ایران کو کسی صورت قبول نہیں۔

ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مستقبل میں جوہری معاہدے کے سوا کسی اور موضوع پر کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔

بدھ کو اپنی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں سپریم رہنما نے کہا ہے کہ "ہم نے حکومت کو امریکہ کے ساتھ صرف جوہری امور پر بات چیت کی اجازت دی تھی۔ دیگر معاملات پر امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی اجازت نہ دی گئی ہے اور نہ ہی دی جائے گی۔"

خامنہ ای کے بقول دیگر معاملات پر گفتگو کے نتیجے میں امریکہ کو ایران پر اثر انداز ہونے اور اس پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا موقع مل جائے گا جو ایران کو کسی صورت قبول نہیں۔

خامنہ ای کے اس بیان سے ایک روز قبل ہی معتدل مزاج تصور کیے جانے والے ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ ان کا ملک شام میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے امریکہ اور سعودی عرب سے بات چیت پر آمادہ ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای کے بیان کو ایرانی صدر حسن روحانی کی جانب سے امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کے اس بیان کا ردِ عمل قرار دیا جارہا ہے۔

ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان جولائی میں طے پانے والے جوہری معاہدے کےبعد امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات میں بہتری اور دیگر تنازعات کے حل کی جانب پیش رفت کا امکان پیدا ہوا تھا جب کہ دونوں ملکوں کے اعلیٰ سطحی رابطوں میں بھی اضافہ ہوا تھا۔

لیکن معاہدے پر اتفاقِ رائے کے بعد سے ایران کے سخت گیر حلقوں کی جانب سے مسلسل امریکہ کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں کی مخالفت پر مبنی بیانات سامنے آرہے ہیں۔

منگل کو تہران میں آسٹریا کے صدر ہینز فشر کے ساتھ ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے صدر روحانی نے کہا تھا کہ اگر سعودی عرب اور امریکہ کے ساتھ بات چیت کے نتیجے میں شام میں قیامِ امن اور جمہوریت کا حصول ممکن ہو سکتا ہے تووہ اس بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر بات چیت کا نتیجہ ایک محفوظ، مستحکم اور جمہوری شام کی صورت میں نکلنے کی امید ہو تو ایران خطے کے ملکوں کے علاوہ بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ بھی بات چیت کے لیے آمادہ ہے۔

ایران شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کا سب سے بڑا اتحادی ہے جو گزشتہ ساڑھے چار برسوں سے جاری خانہ جنگی کے دوران اسد حکومت کو ہر ممکن سفارتی، مالی اور فوجی مدد فراہم کرتا رہا ہے۔