طالبان امن معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنانے کی کوششوں کے سلسلے میں، امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت، زلمے خلیل زاد جمعے کو اسلام آباد کے دورے پر ہیں۔ انھوں نے پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق، راولپنڈی میں واقع پاکستان فوج کے صدر دفتر میں ہونے اس ملاقات میں ''باہمی دلچسپی کے امور اور افغان مصالحتی عمل سمیت، علاقائی سلامتی کی مجموعی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا''۔
اس موقع پر جنرل باجوہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ، "افغان امن عمل کے مقصد کے لیے پاکستان کی حمایت ہمارے جذبہ خیر سگالی کی عکاس ہے۔"
بیان کے مطابق، امریکی سفارت کار نے خطے میں امن و سلامتی اور استحکام کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔
خلیل زاد نے کی شب دوحہ میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات کے بعد نئی دہلی پہنچے تھے، جہاں اُنہوں نے اعلٰی بھارتی حکام سے ملاقاتیں کیں۔
اس سے قبل، دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے بتایا تھا کہ دورہ پاکستان کے دوران خلیل زاد پاکستانی حکام سے ملاقات میں افغان امن عمل کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔
زلمے خلیل زاد ایسے وقت میں خطے کے مختلف ملکوں کا دورہ کر رہے ہیں، جب قیدیوں کے تبادلے میں التوا اور افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافے سے افغان امن عمل تعطل کا شکار ہے۔
جمعے کو نیوز بریفنگ کے دوران پاکستان کی دفتر خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ اسلام آباد کے دورے کے دوران خلیل زاد پاکستانی حکام سے افغان امن عمل کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔ ترجمان نے بتایا کہ افغانستان میں قیام امن سے متعلق اسلام آباد کا ایک اصولی موقف ہے۔ پاکستان افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں میں تعاون کرتا رہا ہے۔
ایک ماہ کے دوران خلیل زاد کا یہ پاکستان کا دوسرا دورہ ہے۔ اس سے قبل خلیل زاد دوحہ میں طالبان سے ملاقات کے بعد افغانستان میں تعینات امریکی فورسز کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر کے ہمراہ 14 اپریل کو پاکستان آئے تھے، جہاں اُنہوں نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تھی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ اب بھی سمجھتا ہے کہ پاکستان دوحہ معاہدے کے بعد افغان امن عمل کی پیش رفت میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان کی دفتر خارجہ کی ترجمان نے ایک بار پھر دوحہ معاہدے کو تاریخی موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ فریقین کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
عائشہ فاروقی نے افغان فریقین کو مشورہ دیا کہ اس معاہدے کی شرائط پر عمل کریں، تاکہ امن عمل آگے بڑھ سکے۔ ترجمان کے بقول اسلام آباد پر امید ہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے گا۔
عائشہ فاروقی نے کہا کہ پاکستان نے افغان امن عمل کی کوششوں میں سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے بقول، ہمارا فریقین کو مشورہ ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے اس موقع کو ضائع نہ کریں۔
یادر ہے کہ 29 فروری کو دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ لیکن معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے میں تاخیر اور طالبان کی پرتشدد کارروائیوں کے باعث امن عمل بظاہر تعطل کا شکار ہے۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی نے جمعرات کی شب دوحہ میں طالبان کے نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر اور ان کی ٹیم سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران خلیل زاد نے طالبان سے ایک بار پھر تشدد میں کمی اور انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا، تاکہ کرونا وائرس کی عالمی وبا سے نمٹنے کی کوششوں پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔
خلیل زاد نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ دوحہ میں گزشتہ شب ملا برادر اور ان کی ٹیم سے طویل ملاقات میں انہوں نے افغان امن عمل سے متعلق کئی امور پر پیش رفت کا تقاضا کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ عالمی برادری بھی طالبان سے جنگ بندی کا کہہ چکی ہے، تاکہ کرونا وبا سے بہتر طور پر نمٹا جا سکے۔
خلیل زاد نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے عمل کو تیز کرنے بھی زور دیا۔ انہوں نے امریکی شہری مارک فریریچس کی بازیابی کے لیے ضروری اقدامات پر بھی زور دیا ہے۔ امریکی شہری مارک کو چند ماہ قبل بعض عسکریت پسند گروپوں نے مبینہ طور پر افغانستان سے اغوا کر لیا تھا۔
خلیل زاد نے امن عمل کے لیے علاقائی اور بین لااقوامی حمایت کی بھی بات کی تاکہ بین الاافغان مذاکرات کی طرف پیش رفت کی جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے دورے کے بعد وہ دوبارہ دوحہ میں طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کریں گے۔
خلیل زاد نے دوحہ میں طالبان کے نمائندوں سے بات چیت کے بعد جمعرات کو نئی دہلی میں بھارت کے وزیر خارجہ اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر سے بھی ملاقات کی۔
زلمے خلیل زاد کے تازہ بیان پر تاحال طالبان کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ لیکن قبل ازیں، طالبان تشدد میں کمی اور جنگ بندی کے مطالبات مسترد کرتے ہوئے امریکہ اور دوحہ میں طے پانے والے امن معاہدے پر عمل درآمد پر زور دیتے آ رہے ہیں۔
طالبان کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے تمام قیدیوں کی رہائی سے پہلے بین الافغان مذاکرات میں شرکت نہیں کریں گے۔
اُن کا موقف ہے کہ دوحہ معاہدے کے تحت طالبان، افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف اپنی کارروائیاں روکنے کے پانبد نہیں ہیں یاد رہے کہ امن معاہدے کے تحت افغان حکومت کو طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کرنا ہیں جس کے بدلے طالبان ایک ہزار افغان قیدیوں کو رہا کریں گے۔
اس سلسلے میں دونوں جانب سے محدود تعداد میں قیدیوں کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔ اب تک افغان حکومت طالبان کے 900 سے زائد قیدیوں کو رہا کر چکی ہے۔
افغانستان کی قومی سلامتی کونسل کے طرف سے ٹوئٹر پر بتایا گیا کہ افغان حکومت نے ملک کی مختلف جیلوں سے اب تک 933 طالبان قیدیوں کو رہا کر دہا ہے۔ دوسری طرف اب تک طالبان نے افغان حکومت کے 132 قیدی رہا کیے ہیں۔