امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت، زلمے خلیل زاد بدھ کے روز افغان دارالحکومت کابل پہنچے، جہاں انھوں نے صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔ یہ بات صدر اشرف غنی کی معاون ترجمان درانی وزیری نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس سے گفتگو کرتے ہوئے بتائی ہے۔
صدارتی ترجمان صدیق صدیقی نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ یہ ملاقات صدارتی محل میں ہوئی، جس دوران جنگ بندی اور افغانستان میں طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کے بارے میں بات کی گئی۔
ایک ٹوئیٹ میں ترجمان نے کہا کہ ’’ارگ محل میں صدر غنی نے مسٹر خلیل زاد کا خیرمقدم کیا، جس کے بعد خلیل زاد نے قطر اور پاکستان کے اپنے دوروں کے بارے میں صدر کو بریفنگ دی جن کا مقصد امن کی کوششوں کو فروغ دینا تھا‘‘۔
صدیق صدیقی نے بتایا کہ دونوں فریق نے اس توقع کا اظہار کیا کہ افغانستان میں امن بحال کرنے کے لیے جنگ بندی عمل میں آئے گی۔
دریں اثنا، روزنامہ ’عرب نیوز‘ نے اسلام آباد میں طالبان ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ خلیل زاد نے طالبان پر زور دیا ہے کہ ایسے میں جبکہ دوحہ میں بات چیت جاری ہے، 10 روز کے لیے جنگ بندی پر اتفاق کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ اگر باغی گروپ نے اس پر عمل نہ کیا تو امن عمل روک دیا جائے گا۔
دوسری جانب افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر، حمداللہ محب نے کہا ہے کہ القاعدہ اور داعش کے علاوہ طالبان وہ دہشت گرد گروپ ہے، جو دوسرے دہشت گرد گروہوں کو افغانستان میں تباہی پھیلانے کی گنجائش فراہم کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ طالبان ’’وسطی ایشیا، قفقاز، جنوبی ایشیا، عرب ممالک، چین، ایران اور دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کو جگہ فراہم کرتے ہیں۔‘‘
حمداللہ محب نے یہ بات تہران میں جاری دوسرے علاقائی سلامتی کے مکالمے سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہے۔ اجلاس میں ایران، افغانستان، روس، چین، بھارت، ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان شرکت کر رہے ہیں۔
کسی ملک کا نام لیے بغیر، محب نے کہا کہ ’’دہشت گردی، انتہا پسندی، منشیات اور غیر ریاستی عناصر، جو کچھ ملکوں کی ایما پر تشدد کی کارروائیاں کرتے ہیں، وہ ہی ہمارے خطے کے سیاسی عدم استحکام کا باعث ہیں، جن سے ہمارے خطے کی سلامتی کو شدید خدشات لاحق ہیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے افغانستان ان ملکوں میں شامل ہے جس نے ان علاقائی خطرات کے نتیجے میں مشکلات جھیلی ہیں۔