امریکہ افغانستان میں قیام امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے طالبان کے ساتھ باضابطہ بات چیت کی بحالی کے لیے تیار ہے۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ تین ماہ پہلے روک دیا گیا تھا۔
امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد بدھ کو کابل پہنچے جہاں وہ افغان حکومتی نمائندوں اور دیگر رہنماؤں سے ملاقات کررہے ہیں۔ اس کے بعد وہ قطر کے دارالحکومت دوحہ روانہ ہوں گے جہاں طالبان مذاکرات کار موجود ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں خلیل زاد کے دورہ قطر کی تاریخ نہیں دی گئی۔ طالبان ذرائع نے توقع کا اظہار کیا ہے کہ خلیل زاد کے ساتھ اجلاس آئندہ ہفتے ہوگا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’دوحہ میں خلیل زاد طالبان سے مذاکرات میں شریک ہوں گے۔ مذاکرات میں وہ اقدامات زیر غور آئیں گے، جن کی مدد سے بین الافغان مذاکرات اور افغان لڑائی کے پرامن تصفیے کی جانب بڑھا جاسکے۔ ان کا مقصد خاص طور پر شدت پسندی میں کمی لانا ہے تاکہ جنگ بندی عمل میں آسکے۔‘
امریکی بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان دارالحکومت میں قیام کے دوران خلیل زاد تھینکس گیونگ کے موقع پر صدر ٹرمپ کے دورے کے نتائج کو آگے بڑھانے میں مدد دیں گے۔ خلیل زاد کی کوشش ہوگی کہ افغانوں سے افغانوں کے مذاکرات پر تمام فریقوں کو تیار کیا جائے۔
قطر میں طالبان کے ساتھ بات چیت کے نو ادوار کے دوران زلمے خلیل زاد نے امریکی وفد کی قیادت کی لیکن اس سال ستمبر میں کابل میں طالبان کے حملے کے بعد صدر ٹرمپ نے امن عمل کو اچانک منسوخ کردیا تھا۔
گزشتہ جمعرات کو صدر ٹرمپ نے بگرام کے فضائی اڈے پر افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’’طالبان معاہدہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ہم ان سے مل رہے ہیں اور جنگ بندی چاہتے ہیں۔ طالبان پہلے جنگ بندی نہیں چاہتے تھے لیکن اب وہ جنگ بندی کے حق میں ہیں۔‘‘
طالبان کا موقف ہے کہ افغان افواج کے ساتھ جنگ بندی اس وقت ہوگی جب بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے مذاکرات وسیع تر افغان معاشرےکے نمائندوں کے ساتھ ہوں گے جس میں سرکاری اہلکار نجی حیثیت میں شریک ہوں، نہ کہ کابل کے ایلچی کے طور پر۔
افغان صدر اشرف غنی کے مشیر اصرار کرتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی قیادت افغان حکومت کرے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان اورافغان مذاکرات، خلیل زاد اور ان کی ٹیم کے لیے ایک سخت چیلنج ثابت ہونگے۔