میرے اللہ نے کتنا سہل رکھا ہے اپنے گھر کا سفر۔ دنیا میں کیا کیا جال بچھے ہوتے ہیں کہ دل ہر شے میں اٹکا رہتا ہے۔ مگر جب نقّارہ بجتا ہے تو سب ٹھاٹ پڑا رہ جاتا ہے اور بندہ دو سفید چادروں میں سوئے عدم ہوتا ہے
واشنگٹن —
دنیا کے بکھیڑوں سے جان چُھڑاتے چُھڑاتے بہر حال وہ یادگار لمحے آن پہنچے کہ ہم حج کے مبارک سفر پر روانہ ہوئے۔ کیا خوشی تھی جو ناقابلِ بیان ہے۔ سب فکریں پریشانیاں پیچھے چھوڑے جا رہے تھے۔ بس ایک لگن تھی جو اڑائے لئے جارہی تھی۔
یہ عجیب سفر تھا کہ جسکی کوئی خاص تیاری نہیں تھی۔ نہ کسی کے لئے تحفے خریدنے تھے۔نہ کسی بڑے سامان کی ضرورت تھی۔ محض ایک جوڑی احرام کی۔ چند شلوار قمیص، چپل، ضروری دوائیاں، چھوٹا سا سوٹ کیس اور بس۔
ایک اضافی احرام وہاں جا کر لینا تھا، تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے۔ بیوی نے بھی اسی طرح تھوڑا سا سامان رکھا اور اللہ اللہ خیر صلیٰ۔ اور ان کو تو اور بھی سہولت تھی کہ کوئی بھی لباس پہنیں اوپر سے عبایا لیا سر پر دوپٹّہ اچھی طرح اوڑھ لیا اور بس۔ ورنہ آپ جانیں،خواتین کی کیا کیا تیاریاں ہوتی ہیں۔ وہ تو اگر جہاز پر سامان کی حد مقرّر نہ ہو تو پورا جہاز چند مستورات کے ساز و سامان کے لئے بھی ناکافی ہو جائے۔
میرے اللہ نے کتنا سہل رکھا ہے اپنے گھر کا سفر۔ دنیا میں کیا کیا جال بچھے ہوتے ہیں کہ دل ہر شے میں اٹکا رہتا ہے۔ مگر جب نقّارہ بجتا ہے تو سب ٹھاٹ پڑا رہ جاتا ہے اور بندہ دو سفید چادروں میں سوئے عدم ہوتا ہے۔
ایک روز پہلے ہی میں اپنی بڑی بیٹی ربیعہ سے کہہ رہا تھا کہ پاکستان میں تو رواج ہے کہ پورا کا پورا گاؤں، حج پر جانے والوں کو رخصت کرنےآتا ہے۔ بلکہ، جو نہ آئے تو حاجی صاحب ناراض ہو جاتے ہیں۔ اور بہت سخت شکوہ کیا جاتا ہے۔ ہم اگر وہاں ہوتے تو تھوڑے بہت لوگ ہمیں بھی ائرپورٹ پر الوداع کہنے آتے۔ مگر یہاں پر تو تم کل اکیلی ہوگی، کیونکہ چھوٹی مدیحہ بھی پاکستان میں تھی، اپنے دفترکے کام سے۔
لیکن، یہ کیسے ممکن تھا کہ جس اللہ کے گھر ہم مہمان جا رہے تھے، وہ ہماری چھوٹی سی بھی خواہش رَد کرتا۔ لہٰذا، جب ہم ائرپورٹ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارے دیرینہ دوست ،کرنل (ریٹائرڈ) جاوید جنجوعہ مع اپنی اہلیہ کے موجود ہیں۔ ان کے ساتھ ایک اور دوست راجہ غلام نبی بھی کھڑے تھے۔تھوڑی دیر گزری تھی کہ شاہد معین جو میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہیں، اپنے بیوی اور پھول جیسی بیٹیوں اور شوخ بیٹے کے ساتھ چلے آرہے ہیں۔ خوب رونق ہوگئی۔ مزا آگیا۔ آگے کاؤنٹر کی طرف بڑھے تو اعجاز جنجوعہ اپنی ٹیم کے ہمراہ کھڑے تھے۔ ساتھ ہی ان کے پارٹنر عادل کے دفتر کی دو میزبان لڑکیاں بھی۔عازمینِ حج کے استقبال کےلئے موجود تھیں۔ ہمارا سامان اور پاسپورٹ وغیرہ اعجاز نے لے لیے اور ٹکٹ اور دوسری کاروائیاں پوری کروائیں۔ غرض ہم اپنے پیارے دوستوں سے گلے ملتے، ٹیلیفون، ای۔میل اور فیس بک پر ملنے والی ڈھیروں دعاؤں کے سہارے جہاز پر سوار ہوئے۔
یہ بھی خدا کا شکر تھا کہ پرواز سعودیہ ائرلائن کی تھی، جو واشنگٹن سے سیدھی جدّہ جا رہی تھی۔ راستے میں کوئی اسٹاپ نہیں تھا۔ ورنہ دوسری ائر لائنز پر تو لوگوں کو کئی کئی گھنٹوں کا سٹاپ برداشت کرنا پڑا۔ جہاز میں داخل ہوتے ہی محسوس ہوا کہ سعودیہ پہنچ گئے۔ کچن کے ساتھ ایک بڑی کھُلی جگہ تھی باجماعت نماز کے لئے، پوری رات مرد و خواتین وہاں عبادت کرتے رہے۔ ساتھ ہی مسافروں کی تواضع کےلئے، فضائی میزبانوں نے ایک میز مستقل طور پر کھانے پینے کی چیزوں سے سجا رکھی تھی، جس سے لوگ پورے رات لطف اٹھاتے رہے۔
اس طرح، سوتے جاگتے، کھاتے پیتے اور عبادتیں کرتے 14 گھنٹے سے زیادہ کا وقت بڑی تیزی سے گزر گیا۔ اور ہم تازہ دم، جدّہ کے حج ٹرمینل پر کھڑے تھے۔ یہ ایک اور اچھی بات تھی کہ فلائٹ سعودیہ کے انٹرنیشنل ائرپورٹ پر نہیں اتری۔ ورنہ وہاں تو سینکڑوں پروازوں کی آمدورفت ہوتی ہے ،جس میں کئی گھنٹے انتظار کی زحمت اٹھانا پڑتی۔ یہ دیکھ کر اور بھی خوشی ہوئی کہ عادل اور انکے ساتھی، جو ایک ہفتہ پہلے ہی وہاں پہنچ گئے تھے،ہماری مدد کے لئے کھڑے تھے۔ پورے ائرپورٹ پر صرف ہمارے ہی جہاز کے مسافر تھے۔ اس لئے امیگریشن کا کام فوری طور پر ہوگیا۔ لیکن، جناب اچانک کیا ہوا کہ کچھ کمپونڈر نما لوگوں کا طبی عملہ، ہاتھوں میں دوائیاں اور سرنج لئے نمودار ہوگیا۔ اور لوگوں سے کہا منہ کھولئے اور حلق میں دوائیاں ڈالنی شروع کردیں۔ وہ اصل میں ایک خاص وائرس کے بارے میں جانچنے کے لئے آئے تھے۔ انہوں نے آگے بیٹھے لوگوں پر کاروائی شروع کی۔ ہم ذرا دور بیٹھے تھے۔ لیکن، پریشانی شروع ہوگئی۔ اب پتہ نہیں کتنی دیر لگے گی اور نہ جانے کس کو روک لیں اور کس کو جانے دیں اور مجھے تو یہ گلے میں دوائی ڈلوانا ویسے بھی بہت مشکل لگتا ہے۔ ابھی اس کشمکش میں ہی تھے کہ اللہ بھلا کرے ہمارے منتظمین کا کہ انہوں نے صورتحال کو فوراًٍ بھانپ لیا اور انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ جلدی چلیں۔ اگلی فلائٹ کا ٹائم ہو گیا۔ لوگوں نےشکر کیا کہ جان خلاصی ہوئی۔ سب ایک دم کھڑے ہوگئے اور باہر کی طرف چل پڑے۔ تو اِس بھگدڑ میں طبی کاروائی ٹھپ ہوگئی اور ہم نے بھی خدا کا شکر ادا کیا اور اُس بس میں جا کر بیٹھ گئے، جو ہمیں ڈومیسٹک ٹرمینل کی طرف لے گئی۔ وہاں مدینے شریف کی فلائٹ تیار کھڑی تھی جو ہماری اگلی منزل تھی۔
یہ شوقِ دیدار تھا۔ ایک تڑپ تھی کہ جزبہٴمحبت تھا کہ سفر کب شروع ہوا کب ختم۔ محسوس ہی نہیں ہوا۔ مونا ونڈو سیٹ پر بیٹھی تھیں۔اچانک چیخ کر بولیں ’دیکھیں دیکھیں، واہ واہ۔
ماشاآللہ‘۔ میں نے بھی فوراً باہر دیکھا۔ روشنی اور نور سے مرقّع مسجدِ نبوی چمک رہی تھی۔ ہم دونوں اس دلفریب منظر کو بڑے اشتیاق سے دیکھتے رہے کہ اوپر حج کا چاند چمک رہا تھا اور نیچے ہمارے پیارے نبی کا مسکن۔ لگتا تھا، نور کی ایک کرن ہے جو آسمان سے زمین تک کو لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔
مونا نے جلدی سے اپنا آئی پیڈ سنبھالا کہ اس منظر کو کیمرے میں محفوظ کرلیں۔ لیکن انسان کی آنکھ جو کچھ دیکھ سکتی ہے جو محسوس کر سکتی ہے، وہ کیمرہ کہاں دیکھ سکتا ہے۔
چند لمحے بعد ہی ہم خاکِ مدینہ کو چھو رہے تھے۔کہاں میں، کہاں یہ مقام۔ اللہ اللہ۔
ائرپورٹ کے باہر ہماری بسیں تیار کھڑی تھیں۔ جو ہوٹل طیبہ لیکر پہنچ گئیں۔
مدینہ، مدینہ، مدینہ، مدینہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بڑا لطف دیتا ہے یہ نامِ مدینہ۔
ہوٹل سے چند منٹ کی دوری پر ہی۔ وہ اعلیٰ مقام تھا، جسکی آرزو لئے دنیا بھر سے ہزارہا مسلمان یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ جہاں کی خاک کا ہرذرّہ ا نتہائی مقدّس، انتہائی قیمتی ہے، کہ نہ جانے کس بلند پایہ ہستی کے قدم یہاں پڑے ہوں گے۔ اور متعدّد عقیدت مند ایسے بھی رہے ہیں، جو ساری عمر برہنہ پا، اس مبارک زمین پر چلتے رہے کہ کہیں بے حرمتی کی سزا پر، پکڑ میں نہ آجائیں۔
’جسے چاہا در پے بلا لیا، جسے چاہا اپنا بنا لیا۔ یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے۔ یہ بڑے نصیب کی بات ہے‘
ہم بھی پاک صاف ہو کر رات کے پچھلے پہر خوف اور محبت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ، دبے دبے قدم اٹھاتے، سوئے منزل چلے۔ باہر صحن میں کچھ لوگ نمازِ عشاء باجماعت ادا کر رہے تھے۔ انکے ساتھ شامل ہوگیا اور دعا کی کہ مولا حاضری ہو جائے۔ کیونکہ رش کافی تھا اور پھر آہستہ آہستہ چلتےاس دروازے سے داخل ہوگیا جو آپ ﷺکے روضے کی جانب جاتا تھا۔ اللہ کی مہربانی سے سلام پیش کرنے کا موقع چند لمحے کے لئے مل گیا۔ دوست احباب کا سلام پہنچایا۔ مگر زیادہ وقت نہیں مل سکا۔ پھر بھی شکر ادا کیا۔ دل کو تسلّی ہوئی کہ ابھی وقت ہے۔ تفصیلی حاضری ہو جائے گی۔
لیکن، یہ محض خام خیالی تھی۔یہ حج کا زمانہ تھا اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ عاشقوں کا ہجوم بڑھتا جارہا تھا۔ ہر نماز میں کوشش کی۔ رات کے مختلف اوقات میں جاکر دیکھا۔ روضے تک بمشکل حاضری ہو جاتی۔ لیکن، سکون سے درود سلام کا موقعہ نہیں مل رہا تھا اور ریاض الجنتہ میں نوافل ادا کرنا تو بالکل ناممکن نظر آرہا تھا۔
پھر کچھ ساتھیوں سے مشورہ کیا اور ان کے تجربے سے کوشش کی۔ لیکن، نوافل کی جگہ پر اس طرح لوگ قبضہ جمائے ہوئے تھے کہ وہاں عبادت کرنا تو کُجا، سانس لینا بھی مشکل تھا۔ کئ مرتبہ کی ناکامی نے اُداس کر دیا۔ جانے کا وقت قریب آرہا تھا اور سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کیا جائے۔ ایک ساتھی کی مدد سے منبرِ رسول تک پہنچنے میں کامیابی ہوگئی۔ لیکن، آگے جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اب بس ایک رات رہ گئی تھی اور کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ لگتا تھا خالی ہاتھ ہی لوٹیں گے۔ یقیں ہو چلا کہ اس قابل ہی نہیں کہ اس مُتبرّک جگہ پر ہماری حاضری ہو سکے۔ اسی احساس کے ساتھ، عشاء کی نماز ادا کرتے ہوئے، سجدے میں گیا تو آنسوؤں کی ایسی جھڑی جاری ہوگئی جو رکنے کا نام نہیں لیتی تھی۔گڑگڑا کر اللہ سے ایک بار پھر مدد کی درخواست کی کہ مولا میں اس قابل نہیں۔ تو ہی راستہ بنا دے اور ہماری حاضری آسان کر دے۔
نہ جانے کب اٹھا اور کب ایک بارپھر اُسی جانب چل پڑا۔ ایک انجانی قوت مجھے لئے جارہی تھی۔ ستونوں کے قریب پہنچا تو بھیڑ کا وہی عالم تھا۔ لیکن، ہمت کرکے کھڑا رہا۔ اور اس مرتبہ فرق یہ ہوا کہ اس ہجوم میں خود ہی جگہ بنتی گئی اور آہستہ آہستہ ایک ستون کے پاس پہنچ گیا۔ لیکن، سمجھ نہیں آرہی تھی کہ نفل کے لئے جگہ کیسی بنائی جائے۔ پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھا اور ایک شخص جو شکل سے چینی لگتا تھا، نفل پڑھ کر فارغ ہوا تھا۔ میری حالت بھانپ گیا اور اشارے سے مجھے اپنی جگہ دی اور کہا، اسٹارٹ، اسٹارٹ۔ میں نے بھی بغیر کسی وقفے کے نیت باندھ لی۔نفل پڑھ کر۔ اب دوسری جگہ کی تلاش ہوئی، تو پھر ایک اور شخص نے اپنی جگہ دے دی۔ وہاں سےنفل پڑھ کر کھڑا ہوا تو میری نظر روضے کی دیوار کے بالکل ساتھ ایک کونے پر تھی۔ وہاں ایک پاکستانی صاحب نفل پڑھ کر کھڑے ہوئے تو انہوں نے ہاتھ بڑھا کر مجھے اپنی جگہ کھڑا کیا۔ سعودی شرطے نے مجھے دیکھا اور خیال تھا کہ وہ کچھ بولے گا۔ لیکن، اللہ کی کرنی یہ ہوئی کہ وہ بھی وہاں سے ہٹ کر کہیں اور چلا گیا۔ اب میرے لئے میدان بالکل صاف تھا۔ کوئی دھکم پیل نہیں تھی۔ کارنر کی جگہ تھی۔ بائیں ہاتھ پر روضے کی دیوار تھی اور یہ آخری صف تھی اس لئے کوئی آگے بھی نہیں تھا۔ بس پوری تسلی سے جی بھر کے نوافل ادا کئے۔ دعائیں کیں۔ اور بھی بیٹھ سکتا تھا۔ لیکن، سوچا کہ لالچ ٹھیک نہیں۔ کسی اور کو بھی موقع ملنا چاہیئے۔ اس لئے شکر ادا کرکے اٹھا۔اور راستہ بناتے بناتے، روضے کی جالیوں تک پہنچ گیا۔سلام پیش کیا۔ شکریہ ادا کیا اور پھر قبلہ رخ ہو کر، مسجد کی بالکل آخری صف کی طرف بڑھا تو ایک بار پھر دیکھا کہ ایک پاکستانی بھائی وہاں قران پڑھ رہے تھے۔ میں نے ان سے تھوڑی سی جگہ مانگی جو انہوں نے بخوشی دے دی۔
یہ ایک ایسا انعام تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اللہ کا شکر کیسے ادا کروں کہ کتنے فرشتہ صفت لوگ میری مدد کو آگئے اور میری حسرت پوری ہوئی۔ آنے کا مقصد پورا ہوا۔ نوافل بھی ادا کئے۔ دل کھول کر دعائیں کیں۔ جس جس نے دعاؤں اور سلام کے لئے کہا تھا، وہ پہنچائیں اور سجدے سے جب سر اٹھایا تو آنسوؤں سے دل ہلکا ہوچکا تھا۔
مسجد سے باہر آیا تو کافی دیر اس سبز گنبد کو دیکھتا رہا کہ جی بھر کر دیکھ لوں اور اس منظر کو آنکھوں میں بسالوں۔ نہ جانے اب کب یہاں آنا ہو، کیونکہ اب ہماری عمرے اور حج کیلئے روانگی کا وقت تھا اور اگلی منزل مسجد حرام تھی۔
یہ عجیب سفر تھا کہ جسکی کوئی خاص تیاری نہیں تھی۔ نہ کسی کے لئے تحفے خریدنے تھے۔نہ کسی بڑے سامان کی ضرورت تھی۔ محض ایک جوڑی احرام کی۔ چند شلوار قمیص، چپل، ضروری دوائیاں، چھوٹا سا سوٹ کیس اور بس۔
ایک اضافی احرام وہاں جا کر لینا تھا، تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے۔ بیوی نے بھی اسی طرح تھوڑا سا سامان رکھا اور اللہ اللہ خیر صلیٰ۔ اور ان کو تو اور بھی سہولت تھی کہ کوئی بھی لباس پہنیں اوپر سے عبایا لیا سر پر دوپٹّہ اچھی طرح اوڑھ لیا اور بس۔ ورنہ آپ جانیں،خواتین کی کیا کیا تیاریاں ہوتی ہیں۔ وہ تو اگر جہاز پر سامان کی حد مقرّر نہ ہو تو پورا جہاز چند مستورات کے ساز و سامان کے لئے بھی ناکافی ہو جائے۔
میرے اللہ نے کتنا سہل رکھا ہے اپنے گھر کا سفر۔ دنیا میں کیا کیا جال بچھے ہوتے ہیں کہ دل ہر شے میں اٹکا رہتا ہے۔ مگر جب نقّارہ بجتا ہے تو سب ٹھاٹ پڑا رہ جاتا ہے اور بندہ دو سفید چادروں میں سوئے عدم ہوتا ہے۔
ایک روز پہلے ہی میں اپنی بڑی بیٹی ربیعہ سے کہہ رہا تھا کہ پاکستان میں تو رواج ہے کہ پورا کا پورا گاؤں، حج پر جانے والوں کو رخصت کرنےآتا ہے۔ بلکہ، جو نہ آئے تو حاجی صاحب ناراض ہو جاتے ہیں۔ اور بہت سخت شکوہ کیا جاتا ہے۔ ہم اگر وہاں ہوتے تو تھوڑے بہت لوگ ہمیں بھی ائرپورٹ پر الوداع کہنے آتے۔ مگر یہاں پر تو تم کل اکیلی ہوگی، کیونکہ چھوٹی مدیحہ بھی پاکستان میں تھی، اپنے دفترکے کام سے۔
لیکن، یہ کیسے ممکن تھا کہ جس اللہ کے گھر ہم مہمان جا رہے تھے، وہ ہماری چھوٹی سی بھی خواہش رَد کرتا۔ لہٰذا، جب ہم ائرپورٹ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارے دیرینہ دوست ،کرنل (ریٹائرڈ) جاوید جنجوعہ مع اپنی اہلیہ کے موجود ہیں۔ ان کے ساتھ ایک اور دوست راجہ غلام نبی بھی کھڑے تھے۔تھوڑی دیر گزری تھی کہ شاہد معین جو میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہیں، اپنے بیوی اور پھول جیسی بیٹیوں اور شوخ بیٹے کے ساتھ چلے آرہے ہیں۔ خوب رونق ہوگئی۔ مزا آگیا۔ آگے کاؤنٹر کی طرف بڑھے تو اعجاز جنجوعہ اپنی ٹیم کے ہمراہ کھڑے تھے۔ ساتھ ہی ان کے پارٹنر عادل کے دفتر کی دو میزبان لڑکیاں بھی۔عازمینِ حج کے استقبال کےلئے موجود تھیں۔ ہمارا سامان اور پاسپورٹ وغیرہ اعجاز نے لے لیے اور ٹکٹ اور دوسری کاروائیاں پوری کروائیں۔ غرض ہم اپنے پیارے دوستوں سے گلے ملتے، ٹیلیفون، ای۔میل اور فیس بک پر ملنے والی ڈھیروں دعاؤں کے سہارے جہاز پر سوار ہوئے۔
یہ بھی خدا کا شکر تھا کہ پرواز سعودیہ ائرلائن کی تھی، جو واشنگٹن سے سیدھی جدّہ جا رہی تھی۔ راستے میں کوئی اسٹاپ نہیں تھا۔ ورنہ دوسری ائر لائنز پر تو لوگوں کو کئی کئی گھنٹوں کا سٹاپ برداشت کرنا پڑا۔ جہاز میں داخل ہوتے ہی محسوس ہوا کہ سعودیہ پہنچ گئے۔ کچن کے ساتھ ایک بڑی کھُلی جگہ تھی باجماعت نماز کے لئے، پوری رات مرد و خواتین وہاں عبادت کرتے رہے۔ ساتھ ہی مسافروں کی تواضع کےلئے، فضائی میزبانوں نے ایک میز مستقل طور پر کھانے پینے کی چیزوں سے سجا رکھی تھی، جس سے لوگ پورے رات لطف اٹھاتے رہے۔
اس طرح، سوتے جاگتے، کھاتے پیتے اور عبادتیں کرتے 14 گھنٹے سے زیادہ کا وقت بڑی تیزی سے گزر گیا۔ اور ہم تازہ دم، جدّہ کے حج ٹرمینل پر کھڑے تھے۔ یہ ایک اور اچھی بات تھی کہ فلائٹ سعودیہ کے انٹرنیشنل ائرپورٹ پر نہیں اتری۔ ورنہ وہاں تو سینکڑوں پروازوں کی آمدورفت ہوتی ہے ،جس میں کئی گھنٹے انتظار کی زحمت اٹھانا پڑتی۔ یہ دیکھ کر اور بھی خوشی ہوئی کہ عادل اور انکے ساتھی، جو ایک ہفتہ پہلے ہی وہاں پہنچ گئے تھے،ہماری مدد کے لئے کھڑے تھے۔ پورے ائرپورٹ پر صرف ہمارے ہی جہاز کے مسافر تھے۔ اس لئے امیگریشن کا کام فوری طور پر ہوگیا۔ لیکن، جناب اچانک کیا ہوا کہ کچھ کمپونڈر نما لوگوں کا طبی عملہ، ہاتھوں میں دوائیاں اور سرنج لئے نمودار ہوگیا۔ اور لوگوں سے کہا منہ کھولئے اور حلق میں دوائیاں ڈالنی شروع کردیں۔ وہ اصل میں ایک خاص وائرس کے بارے میں جانچنے کے لئے آئے تھے۔ انہوں نے آگے بیٹھے لوگوں پر کاروائی شروع کی۔ ہم ذرا دور بیٹھے تھے۔ لیکن، پریشانی شروع ہوگئی۔ اب پتہ نہیں کتنی دیر لگے گی اور نہ جانے کس کو روک لیں اور کس کو جانے دیں اور مجھے تو یہ گلے میں دوائی ڈلوانا ویسے بھی بہت مشکل لگتا ہے۔ ابھی اس کشمکش میں ہی تھے کہ اللہ بھلا کرے ہمارے منتظمین کا کہ انہوں نے صورتحال کو فوراًٍ بھانپ لیا اور انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ جلدی چلیں۔ اگلی فلائٹ کا ٹائم ہو گیا۔ لوگوں نےشکر کیا کہ جان خلاصی ہوئی۔ سب ایک دم کھڑے ہوگئے اور باہر کی طرف چل پڑے۔ تو اِس بھگدڑ میں طبی کاروائی ٹھپ ہوگئی اور ہم نے بھی خدا کا شکر ادا کیا اور اُس بس میں جا کر بیٹھ گئے، جو ہمیں ڈومیسٹک ٹرمینل کی طرف لے گئی۔ وہاں مدینے شریف کی فلائٹ تیار کھڑی تھی جو ہماری اگلی منزل تھی۔
یہ شوقِ دیدار تھا۔ ایک تڑپ تھی کہ جزبہٴمحبت تھا کہ سفر کب شروع ہوا کب ختم۔ محسوس ہی نہیں ہوا۔ مونا ونڈو سیٹ پر بیٹھی تھیں۔اچانک چیخ کر بولیں ’دیکھیں دیکھیں، واہ واہ۔
ماشاآللہ‘۔ میں نے بھی فوراً باہر دیکھا۔ روشنی اور نور سے مرقّع مسجدِ نبوی چمک رہی تھی۔ ہم دونوں اس دلفریب منظر کو بڑے اشتیاق سے دیکھتے رہے کہ اوپر حج کا چاند چمک رہا تھا اور نیچے ہمارے پیارے نبی کا مسکن۔ لگتا تھا، نور کی ایک کرن ہے جو آسمان سے زمین تک کو لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔
مونا نے جلدی سے اپنا آئی پیڈ سنبھالا کہ اس منظر کو کیمرے میں محفوظ کرلیں۔ لیکن انسان کی آنکھ جو کچھ دیکھ سکتی ہے جو محسوس کر سکتی ہے، وہ کیمرہ کہاں دیکھ سکتا ہے۔
چند لمحے بعد ہی ہم خاکِ مدینہ کو چھو رہے تھے۔کہاں میں، کہاں یہ مقام۔ اللہ اللہ۔
ائرپورٹ کے باہر ہماری بسیں تیار کھڑی تھیں۔ جو ہوٹل طیبہ لیکر پہنچ گئیں۔
مدینہ، مدینہ، مدینہ، مدینہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بڑا لطف دیتا ہے یہ نامِ مدینہ۔
ہوٹل سے چند منٹ کی دوری پر ہی۔ وہ اعلیٰ مقام تھا، جسکی آرزو لئے دنیا بھر سے ہزارہا مسلمان یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ جہاں کی خاک کا ہرذرّہ ا نتہائی مقدّس، انتہائی قیمتی ہے، کہ نہ جانے کس بلند پایہ ہستی کے قدم یہاں پڑے ہوں گے۔ اور متعدّد عقیدت مند ایسے بھی رہے ہیں، جو ساری عمر برہنہ پا، اس مبارک زمین پر چلتے رہے کہ کہیں بے حرمتی کی سزا پر، پکڑ میں نہ آجائیں۔
’جسے چاہا در پے بلا لیا، جسے چاہا اپنا بنا لیا۔ یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے۔ یہ بڑے نصیب کی بات ہے‘
ہم بھی پاک صاف ہو کر رات کے پچھلے پہر خوف اور محبت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ، دبے دبے قدم اٹھاتے، سوئے منزل چلے۔ باہر صحن میں کچھ لوگ نمازِ عشاء باجماعت ادا کر رہے تھے۔ انکے ساتھ شامل ہوگیا اور دعا کی کہ مولا حاضری ہو جائے۔ کیونکہ رش کافی تھا اور پھر آہستہ آہستہ چلتےاس دروازے سے داخل ہوگیا جو آپ ﷺکے روضے کی جانب جاتا تھا۔ اللہ کی مہربانی سے سلام پیش کرنے کا موقع چند لمحے کے لئے مل گیا۔ دوست احباب کا سلام پہنچایا۔ مگر زیادہ وقت نہیں مل سکا۔ پھر بھی شکر ادا کیا۔ دل کو تسلّی ہوئی کہ ابھی وقت ہے۔ تفصیلی حاضری ہو جائے گی۔
لیکن، یہ محض خام خیالی تھی۔یہ حج کا زمانہ تھا اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ عاشقوں کا ہجوم بڑھتا جارہا تھا۔ ہر نماز میں کوشش کی۔ رات کے مختلف اوقات میں جاکر دیکھا۔ روضے تک بمشکل حاضری ہو جاتی۔ لیکن، سکون سے درود سلام کا موقعہ نہیں مل رہا تھا اور ریاض الجنتہ میں نوافل ادا کرنا تو بالکل ناممکن نظر آرہا تھا۔
پھر کچھ ساتھیوں سے مشورہ کیا اور ان کے تجربے سے کوشش کی۔ لیکن، نوافل کی جگہ پر اس طرح لوگ قبضہ جمائے ہوئے تھے کہ وہاں عبادت کرنا تو کُجا، سانس لینا بھی مشکل تھا۔ کئ مرتبہ کی ناکامی نے اُداس کر دیا۔ جانے کا وقت قریب آرہا تھا اور سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کیا جائے۔ ایک ساتھی کی مدد سے منبرِ رسول تک پہنچنے میں کامیابی ہوگئی۔ لیکن، آگے جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اب بس ایک رات رہ گئی تھی اور کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ لگتا تھا خالی ہاتھ ہی لوٹیں گے۔ یقیں ہو چلا کہ اس قابل ہی نہیں کہ اس مُتبرّک جگہ پر ہماری حاضری ہو سکے۔ اسی احساس کے ساتھ، عشاء کی نماز ادا کرتے ہوئے، سجدے میں گیا تو آنسوؤں کی ایسی جھڑی جاری ہوگئی جو رکنے کا نام نہیں لیتی تھی۔گڑگڑا کر اللہ سے ایک بار پھر مدد کی درخواست کی کہ مولا میں اس قابل نہیں۔ تو ہی راستہ بنا دے اور ہماری حاضری آسان کر دے۔
نہ جانے کب اٹھا اور کب ایک بارپھر اُسی جانب چل پڑا۔ ایک انجانی قوت مجھے لئے جارہی تھی۔ ستونوں کے قریب پہنچا تو بھیڑ کا وہی عالم تھا۔ لیکن، ہمت کرکے کھڑا رہا۔ اور اس مرتبہ فرق یہ ہوا کہ اس ہجوم میں خود ہی جگہ بنتی گئی اور آہستہ آہستہ ایک ستون کے پاس پہنچ گیا۔ لیکن، سمجھ نہیں آرہی تھی کہ نفل کے لئے جگہ کیسی بنائی جائے۔ پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھا اور ایک شخص جو شکل سے چینی لگتا تھا، نفل پڑھ کر فارغ ہوا تھا۔ میری حالت بھانپ گیا اور اشارے سے مجھے اپنی جگہ دی اور کہا، اسٹارٹ، اسٹارٹ۔ میں نے بھی بغیر کسی وقفے کے نیت باندھ لی۔نفل پڑھ کر۔ اب دوسری جگہ کی تلاش ہوئی، تو پھر ایک اور شخص نے اپنی جگہ دے دی۔ وہاں سےنفل پڑھ کر کھڑا ہوا تو میری نظر روضے کی دیوار کے بالکل ساتھ ایک کونے پر تھی۔ وہاں ایک پاکستانی صاحب نفل پڑھ کر کھڑے ہوئے تو انہوں نے ہاتھ بڑھا کر مجھے اپنی جگہ کھڑا کیا۔ سعودی شرطے نے مجھے دیکھا اور خیال تھا کہ وہ کچھ بولے گا۔ لیکن، اللہ کی کرنی یہ ہوئی کہ وہ بھی وہاں سے ہٹ کر کہیں اور چلا گیا۔ اب میرے لئے میدان بالکل صاف تھا۔ کوئی دھکم پیل نہیں تھی۔ کارنر کی جگہ تھی۔ بائیں ہاتھ پر روضے کی دیوار تھی اور یہ آخری صف تھی اس لئے کوئی آگے بھی نہیں تھا۔ بس پوری تسلی سے جی بھر کے نوافل ادا کئے۔ دعائیں کیں۔ اور بھی بیٹھ سکتا تھا۔ لیکن، سوچا کہ لالچ ٹھیک نہیں۔ کسی اور کو بھی موقع ملنا چاہیئے۔ اس لئے شکر ادا کرکے اٹھا۔اور راستہ بناتے بناتے، روضے کی جالیوں تک پہنچ گیا۔سلام پیش کیا۔ شکریہ ادا کیا اور پھر قبلہ رخ ہو کر، مسجد کی بالکل آخری صف کی طرف بڑھا تو ایک بار پھر دیکھا کہ ایک پاکستانی بھائی وہاں قران پڑھ رہے تھے۔ میں نے ان سے تھوڑی سی جگہ مانگی جو انہوں نے بخوشی دے دی۔
یہ ایک ایسا انعام تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اللہ کا شکر کیسے ادا کروں کہ کتنے فرشتہ صفت لوگ میری مدد کو آگئے اور میری حسرت پوری ہوئی۔ آنے کا مقصد پورا ہوا۔ نوافل بھی ادا کئے۔ دل کھول کر دعائیں کیں۔ جس جس نے دعاؤں اور سلام کے لئے کہا تھا، وہ پہنچائیں اور سجدے سے جب سر اٹھایا تو آنسوؤں سے دل ہلکا ہوچکا تھا۔
مسجد سے باہر آیا تو کافی دیر اس سبز گنبد کو دیکھتا رہا کہ جی بھر کر دیکھ لوں اور اس منظر کو آنکھوں میں بسالوں۔ نہ جانے اب کب یہاں آنا ہو، کیونکہ اب ہماری عمرے اور حج کیلئے روانگی کا وقت تھا اور اگلی منزل مسجد حرام تھی۔