واشنگٹن —
جناب۔ پچھلی نشست میں بات ختم ہوئی تھی کہ ہمیں خبر دی گئی کہ حج کا ویزہ نہیں لگا، جو ایک بڑا جھٹکا تھا میرے لئے۔ کافی دیر پریشانی رہی اور اعجاز سے جو ہمارے حج کے ایک منتظم تھے کچھ مصروف زیادہ دکھائی دے رہے تھے۔ اس لئے اُن سے بات نہیں ہو پا رہی تھی۔
خیر۔ جب وہ باہر کی طرف چلے تو میں ان کے پیچھے پیچھے چلا۔ انہوں نے گاڑی کی ڈِکی کھولی۔ کچھ اور لوگوں کو ان کے پیکٹ دئے اور مبارکباد بھی دی۔
میں یہ سب حسرت سے دیکھتا رہا۔ جب وہ فارغ ہوگئے تو پھر میں نے انہیں کریدنے کی کوشش کی کہ کیا وجہ ہوئی۔ ہمارا پاسپورٹ کہاں پھنس گیا۔ لیکن، وہ پھر بڑے اطمینان سے بولے۔ بس کبھی کبھی دیر ہو جاتی ہے۔ فکر نہ کریں، آجائیگا۔ لیکن، جناب اتنی بڑی پریشانی ان طفل تسلّیو ں سے کہاں کم ہوتی ہے۔ بلکہ، وہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔
خیر۔ میں گاڑی میں آکر بیٹھہ گیا۔ مونا نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ میں نے بہت برداشت کرتے ہوئے، اعجاز صاحب کی طرح ہی جواب دیا، کوئی خاص بات نہیں۔ کہہ رہے ہیں، آجائیگا۔
اور کوئی موقع ہوتا تو بیوی پر غصہّ نکالنے کا یہ بہترین وقت تھا کہ تمہاری وجہ سے یہ ہوا اور میں پہلے ہی منع کر رہا تھا کہ یہ نہ کرو۔ اب دیکھا، اِس کا نتیجہ؟
لیکن۔ یہ معاملہ ایسا تھا کہ اُس بیچاری کا دُور دُور تک اس سے واسطہ نہیں تھا۔ اس لئے، بچت ہو گئی۔ مگر، ذہن تھا کہ الجھ گیا۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا۔ خدشات میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ ہر فون، اِی میل اور پیغام پر نظر رہتی کہ شاید اعجاز صاحب کچھ خبر دیں۔ لیکن، کہاں وہ بھی اطمینان سے بیٹھے تھے۔
والدہ مرحومہ کہا کرتی تھیں کہ کبھی کبھی فرشتے آپ کی مدد کو آتے ہیں اور مشکل سے مشکل اور ناممکن کام آسانی کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ٕ ہم انہیں آپا کہتے تھے، کیونکہ وہ ہمارے نانا، جناب حاکم مرزا برلاس کی سب سے بڑی اولاد تھیں۔ انکے ایک بھائی اور چار بہنیں تھیں، جو سب انہیں آپا کہتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ محلٍّے والے، سب ملنے والے، عزیز رشتے دار انہیں آپا ہی کہنے لگے۔ لہذا، جب ھمارے کان میں بھی یہ آواز پڑی تو ھم سب بچوں نے بھی انہیں آپا ہی کہنا شروع کر دیا اور وہ جگت آپا ہو گئیں۔ چھوٹے بڑے امیر غریب، کیا نوکر کیا ملنے والے، سب کی وہ رازدار تھیں۔ سب کی دوست تھیں۔ لگتا تھا کہ آپا کا سب سے قریبی شخص شاید یہی ہے۔ خوشی کی بات ہو کہ غم کی۔ سب سے پہلے آپا کو بتائی جاتی۔ اور وہ سب کو دعا دیتیں اور پریشانی پر تسلّی دیتیں کہ اللہ خصوصی مدد کرے گا سب ٹھیک ہو جائیگا۔
میں بھی جب پریشان ہوتا اور انتہائی مایوس ہو جاتا تو وہ میرا چہرہ پڑھ لیا کرتیں۔ پھر مجھ سے پوچھے بغیر دعا کرتی رہتیں اور جب کام بن جاتا تو کہتیں کہ مجھے یقین تھا، خالد کا کام تو فرشتے کرتے ہیں۔ٕ میں سن کر ہنس دیا کرتا تھا کہ یہ اپنی مامتا اور میرا دل رکھنے کے لئے کہہ دیتی ہیں۔ لیکن، جب بھی کبھی مایوسی آن گھیرتی تو پھر جی چاہتا کہ کاش ایسا ہی ہو۔
اس وقت بھی، وہ بہت یاد آرہی تھیں اور فرشتوں کی بھی تلاش تھی۔ کیونکہ، یہ ویزے کا معاملہ کافی گمبھیر تھا اور مزید سجدوں، دعاؤں اور التجاؤں کا تقاضا کر رہا تھا۔ اور شاید یہ ضروری بھی تھا کہ اتنا بڑا کام۔ سب سے بڑے دربار میں حاضری اتنی آسانی سے تو نہیں ہو سکتی تھی۔ چھوٹے سےچھوٹے دفتر اور افسر کے پاس جانے کے لئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور یہاں ہم سمجھ بیٹھے کہ بس فارم بھر دیا۔ پیسے دے دئے۔ پاسپورٹ بھیج دیا اور اب بس جہاز پر سوار ہو جائیں گے۔ لیکن صاحب، ایسا نہیں ہوتا۔ حاکموں کے حاکم، بادشاہوں کے بادشاہ، کُل کائنات کے مالک کے پاس جانے کے لئے اتنی آسانی سے کام نہیں ہوتا۔ مزید ماتھا رگڑنا پڑتا ہے۔ مزید گریہ زاری کرنا پڑتی ہے۔اپنے گناہوں کی اور اس کے کرم کی التجا کرنی پڑتی ہے۔ کئی امتحانوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے، تب رحمتِ عالم جوش میں آتی ہے اور ہم جیسے گناہگار کو بھی معافی مل جاتی ہے۔
اور پھر اس رحمت اللعالمین کو ہم پر رحم آہی گیا۔ اور ایک فرشتہ، بلکہ کئی فرشتے اس حج کے دوران مقرر ہو گئے، جن کا ذکر آگے آئیگا۔
تو پہلا فرشتہ نیویارک میں بیٹھا شخص فرید تھا، جسکا تعلق مصر سے تھا اور جسکی ذمے داری ہم سب کے ویزے لگوانا تھی۔ دراصل، وہ عادل فراماوی کی ٹیم کے ایک فرد تھے۔
عادل فراماوی، ورجینیا کے ایک مصری ٹریول ایجنٹ اور اعجاز جنجوعہ کے حج میں شریک پارٹنر تھے اور سعودی عرب میں حج کے تمام امور کے منتظمِ اعلٰی تھے۔ انکے ساتھ انکے بیٹے، بیوی اور فرید سمیت مستعد عملہ، ائرپورٹ روانگی سے لیکر واپسی تک ہر کام کے لئے ہمہ وقت تیار تھا اور ان سب ساتھیوں کی بدولت ہی ہم نے اتنا بڑا کام اتنی آسانی سے کر لیا۔
تو جناب، قصہ ہمارے ویزے کا یہ ہوا جو ہمیں اعجاز جنجوعہ نے حج کے بعد بتایا۔ کہنے لگے میں نے پہلے اس لئے نہیں بتایا کہ آپ پریشان ہو جائیں گے آپکا ویزہ سٹیکر، بھابی کے پاسپورٹ پر اور ان کا سٹیکر آپ کے پاسپورٹ پر لگ گیا تھا۔ وہ تو خدا کا شکر کے فرید نے بروقت دیکھ لیا ورنہ خالد صاحب کو ائرپورٹ سے احرام پہنے واپس لوٹنا پڑتا۔ اب سب سے بڑا مسئلہ، ان پاسپورٹ کو دوبارہ جمع کرانا اور ان پر صحیح ویزہ لگوانا تھا۔ جو لوگ ویزہ آفس اور خاص طور پر سعودی ویزہ قونصلیٹ سے واقف ہیں وہ میری تائید کریں گے کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔ لیکن، یہ بھائی فرید نے کس طرح کروایا وہی جانتے ہیں اور اسی لئے میں نے کہا کہ وہ میرے لئے فرشتہ ثابت ہوئے۔
اور پھر شکر الحمد لی للہ۔ ایک دن اعجاز صاحب کا فون آیا کہ آپ کے پاسپورٹ آگئے ہیں اور مبارک ہو ویزہ لگ گیا ہے۔ ساتھ ہی، انہوں نے کہا کہ اگر آپ ہفتے تک انتظار کر لیں تو میں پاسپورٹ سمیت تمام چیزیں خود آکر دے دوں گا یا پھر آپ عادل کے دفتر سے اپنے پاسپورٹ لے لیں، باقی چیزیں اور کاغذات میں بعد میں دےدوں گا۔
تو جناب ہم سے انتظار کہاں ہوتا۔ فوراًٍ ہی بیوی کو ساتھ لیا اور پہنچے عادل فراماوی کے دفتر میں جو قریب ہی تھا۔
دفتر میں گھستے ہی انکی سٹاف لڑکی نے کہا کہ آپ اپنا پاسپورٹ لینے آئے ہیں۔ میں حیران ہوا کہ اسے کیسے معلوم ہوا۔ پتہ چلا کہ اعجاز نے پہلے ہی فون کردیا تھا۔ اس نے ہمارے پاسپورٹ دئے۔ بس جی ویزے کو دیکھ کر خوشی کا کیا عالم تھا آپ سمجھ سکتے ہیں۔ دل بَلّیوں اُچھلنےلگا، سرشاری کے عالم میں اس مہربان مالک کا شکریہ ادا کیا۔ اور بار بار پاسپورٹ اور ویزے کو دیکھا۔ کچھ عجیب سی کیفیت تھی کہ اچانک عادل اپنے دفتر سے باہر آگئے اور اندر آنے کی دعوت دی۔ اور بتایا کہ وہ اگلے دن سعودی عرب روانہ ہو رہے ہیں، تاکہ سارے انتظامات ہمارے جانے سے پہلے دیکھ سکیں اور وہ نہیں چاہتے کہ کسی حاجی کو پریشانی ہو اور اسکے دل سے بددعا نکلے۔
یہ سن کر مزید اطمینان ہوا کہ ہم بہت ذمےدار لوگوں کے ہمراہ جا رہے ہیں۔عادل نے ایک بار پھر ہمیں پوری طرح سےحج کے سفر کی ایک ایک تفصیل بتائی اور ہمارے سوالوں کے تسلٍّی بخش جواب دئے۔
وہاں سے نکل کر یہ یقین ہو چلا کہ اب سفر شروع ہو گیا۔ لیکن نہیں۔ ابھی کچھ آزمائیشیں باقی تھیں۔
تاہم، قبولیت کی گھڑی تھی۔ مسئلے حل ہونا شروع ہو گئے۔ اور، بینک میں رقم بھی آگئی اور چھٹی بھی منظور ہوگئی۔ بس، اب لوگوں سے معافی تلافی کا وقت تھا۔ لہٰذا، کچھ کو فون کئے، کچھ کو اِی میل اور پھرFACE BOOK کا سہارا بھی لیا۔ جواب میں، بہت سے لوگوں نے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور دعاؤں کے لئے بھی کہا۔
اور اِنہی دعاؤں کے سہارے، ہم خدا خدا کرکے، خدا کے گھر روانہ ہوئے۔ وہاں کا حال۔ اب اگلی بار۔
خیر۔ جب وہ باہر کی طرف چلے تو میں ان کے پیچھے پیچھے چلا۔ انہوں نے گاڑی کی ڈِکی کھولی۔ کچھ اور لوگوں کو ان کے پیکٹ دئے اور مبارکباد بھی دی۔
میں یہ سب حسرت سے دیکھتا رہا۔ جب وہ فارغ ہوگئے تو پھر میں نے انہیں کریدنے کی کوشش کی کہ کیا وجہ ہوئی۔ ہمارا پاسپورٹ کہاں پھنس گیا۔ لیکن، وہ پھر بڑے اطمینان سے بولے۔ بس کبھی کبھی دیر ہو جاتی ہے۔ فکر نہ کریں، آجائیگا۔ لیکن، جناب اتنی بڑی پریشانی ان طفل تسلّیو ں سے کہاں کم ہوتی ہے۔ بلکہ، وہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔
خیر۔ میں گاڑی میں آکر بیٹھہ گیا۔ مونا نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ میں نے بہت برداشت کرتے ہوئے، اعجاز صاحب کی طرح ہی جواب دیا، کوئی خاص بات نہیں۔ کہہ رہے ہیں، آجائیگا۔
اور کوئی موقع ہوتا تو بیوی پر غصہّ نکالنے کا یہ بہترین وقت تھا کہ تمہاری وجہ سے یہ ہوا اور میں پہلے ہی منع کر رہا تھا کہ یہ نہ کرو۔ اب دیکھا، اِس کا نتیجہ؟
لیکن۔ یہ معاملہ ایسا تھا کہ اُس بیچاری کا دُور دُور تک اس سے واسطہ نہیں تھا۔ اس لئے، بچت ہو گئی۔ مگر، ذہن تھا کہ الجھ گیا۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا۔ خدشات میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ ہر فون، اِی میل اور پیغام پر نظر رہتی کہ شاید اعجاز صاحب کچھ خبر دیں۔ لیکن، کہاں وہ بھی اطمینان سے بیٹھے تھے۔
والدہ مرحومہ کہا کرتی تھیں کہ کبھی کبھی فرشتے آپ کی مدد کو آتے ہیں اور مشکل سے مشکل اور ناممکن کام آسانی کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ٕ ہم انہیں آپا کہتے تھے، کیونکہ وہ ہمارے نانا، جناب حاکم مرزا برلاس کی سب سے بڑی اولاد تھیں۔ انکے ایک بھائی اور چار بہنیں تھیں، جو سب انہیں آپا کہتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ محلٍّے والے، سب ملنے والے، عزیز رشتے دار انہیں آپا ہی کہنے لگے۔ لہذا، جب ھمارے کان میں بھی یہ آواز پڑی تو ھم سب بچوں نے بھی انہیں آپا ہی کہنا شروع کر دیا اور وہ جگت آپا ہو گئیں۔ چھوٹے بڑے امیر غریب، کیا نوکر کیا ملنے والے، سب کی وہ رازدار تھیں۔ سب کی دوست تھیں۔ لگتا تھا کہ آپا کا سب سے قریبی شخص شاید یہی ہے۔ خوشی کی بات ہو کہ غم کی۔ سب سے پہلے آپا کو بتائی جاتی۔ اور وہ سب کو دعا دیتیں اور پریشانی پر تسلّی دیتیں کہ اللہ خصوصی مدد کرے گا سب ٹھیک ہو جائیگا۔
میں بھی جب پریشان ہوتا اور انتہائی مایوس ہو جاتا تو وہ میرا چہرہ پڑھ لیا کرتیں۔ پھر مجھ سے پوچھے بغیر دعا کرتی رہتیں اور جب کام بن جاتا تو کہتیں کہ مجھے یقین تھا، خالد کا کام تو فرشتے کرتے ہیں۔ٕ میں سن کر ہنس دیا کرتا تھا کہ یہ اپنی مامتا اور میرا دل رکھنے کے لئے کہہ دیتی ہیں۔ لیکن، جب بھی کبھی مایوسی آن گھیرتی تو پھر جی چاہتا کہ کاش ایسا ہی ہو۔
اس وقت بھی، وہ بہت یاد آرہی تھیں اور فرشتوں کی بھی تلاش تھی۔ کیونکہ، یہ ویزے کا معاملہ کافی گمبھیر تھا اور مزید سجدوں، دعاؤں اور التجاؤں کا تقاضا کر رہا تھا۔ اور شاید یہ ضروری بھی تھا کہ اتنا بڑا کام۔ سب سے بڑے دربار میں حاضری اتنی آسانی سے تو نہیں ہو سکتی تھی۔ چھوٹے سےچھوٹے دفتر اور افسر کے پاس جانے کے لئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور یہاں ہم سمجھ بیٹھے کہ بس فارم بھر دیا۔ پیسے دے دئے۔ پاسپورٹ بھیج دیا اور اب بس جہاز پر سوار ہو جائیں گے۔ لیکن صاحب، ایسا نہیں ہوتا۔ حاکموں کے حاکم، بادشاہوں کے بادشاہ، کُل کائنات کے مالک کے پاس جانے کے لئے اتنی آسانی سے کام نہیں ہوتا۔ مزید ماتھا رگڑنا پڑتا ہے۔ مزید گریہ زاری کرنا پڑتی ہے۔اپنے گناہوں کی اور اس کے کرم کی التجا کرنی پڑتی ہے۔ کئی امتحانوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے، تب رحمتِ عالم جوش میں آتی ہے اور ہم جیسے گناہگار کو بھی معافی مل جاتی ہے۔
اور پھر اس رحمت اللعالمین کو ہم پر رحم آہی گیا۔ اور ایک فرشتہ، بلکہ کئی فرشتے اس حج کے دوران مقرر ہو گئے، جن کا ذکر آگے آئیگا۔
تو پہلا فرشتہ نیویارک میں بیٹھا شخص فرید تھا، جسکا تعلق مصر سے تھا اور جسکی ذمے داری ہم سب کے ویزے لگوانا تھی۔ دراصل، وہ عادل فراماوی کی ٹیم کے ایک فرد تھے۔
عادل فراماوی، ورجینیا کے ایک مصری ٹریول ایجنٹ اور اعجاز جنجوعہ کے حج میں شریک پارٹنر تھے اور سعودی عرب میں حج کے تمام امور کے منتظمِ اعلٰی تھے۔ انکے ساتھ انکے بیٹے، بیوی اور فرید سمیت مستعد عملہ، ائرپورٹ روانگی سے لیکر واپسی تک ہر کام کے لئے ہمہ وقت تیار تھا اور ان سب ساتھیوں کی بدولت ہی ہم نے اتنا بڑا کام اتنی آسانی سے کر لیا۔
تو جناب، قصہ ہمارے ویزے کا یہ ہوا جو ہمیں اعجاز جنجوعہ نے حج کے بعد بتایا۔ کہنے لگے میں نے پہلے اس لئے نہیں بتایا کہ آپ پریشان ہو جائیں گے آپکا ویزہ سٹیکر، بھابی کے پاسپورٹ پر اور ان کا سٹیکر آپ کے پاسپورٹ پر لگ گیا تھا۔ وہ تو خدا کا شکر کے فرید نے بروقت دیکھ لیا ورنہ خالد صاحب کو ائرپورٹ سے احرام پہنے واپس لوٹنا پڑتا۔ اب سب سے بڑا مسئلہ، ان پاسپورٹ کو دوبارہ جمع کرانا اور ان پر صحیح ویزہ لگوانا تھا۔ جو لوگ ویزہ آفس اور خاص طور پر سعودی ویزہ قونصلیٹ سے واقف ہیں وہ میری تائید کریں گے کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔ لیکن، یہ بھائی فرید نے کس طرح کروایا وہی جانتے ہیں اور اسی لئے میں نے کہا کہ وہ میرے لئے فرشتہ ثابت ہوئے۔
اور پھر شکر الحمد لی للہ۔ ایک دن اعجاز صاحب کا فون آیا کہ آپ کے پاسپورٹ آگئے ہیں اور مبارک ہو ویزہ لگ گیا ہے۔ ساتھ ہی، انہوں نے کہا کہ اگر آپ ہفتے تک انتظار کر لیں تو میں پاسپورٹ سمیت تمام چیزیں خود آکر دے دوں گا یا پھر آپ عادل کے دفتر سے اپنے پاسپورٹ لے لیں، باقی چیزیں اور کاغذات میں بعد میں دےدوں گا۔
تو جناب ہم سے انتظار کہاں ہوتا۔ فوراًٍ ہی بیوی کو ساتھ لیا اور پہنچے عادل فراماوی کے دفتر میں جو قریب ہی تھا۔
دفتر میں گھستے ہی انکی سٹاف لڑکی نے کہا کہ آپ اپنا پاسپورٹ لینے آئے ہیں۔ میں حیران ہوا کہ اسے کیسے معلوم ہوا۔ پتہ چلا کہ اعجاز نے پہلے ہی فون کردیا تھا۔ اس نے ہمارے پاسپورٹ دئے۔ بس جی ویزے کو دیکھ کر خوشی کا کیا عالم تھا آپ سمجھ سکتے ہیں۔ دل بَلّیوں اُچھلنےلگا، سرشاری کے عالم میں اس مہربان مالک کا شکریہ ادا کیا۔ اور بار بار پاسپورٹ اور ویزے کو دیکھا۔ کچھ عجیب سی کیفیت تھی کہ اچانک عادل اپنے دفتر سے باہر آگئے اور اندر آنے کی دعوت دی۔ اور بتایا کہ وہ اگلے دن سعودی عرب روانہ ہو رہے ہیں، تاکہ سارے انتظامات ہمارے جانے سے پہلے دیکھ سکیں اور وہ نہیں چاہتے کہ کسی حاجی کو پریشانی ہو اور اسکے دل سے بددعا نکلے۔
یہ سن کر مزید اطمینان ہوا کہ ہم بہت ذمےدار لوگوں کے ہمراہ جا رہے ہیں۔عادل نے ایک بار پھر ہمیں پوری طرح سےحج کے سفر کی ایک ایک تفصیل بتائی اور ہمارے سوالوں کے تسلٍّی بخش جواب دئے۔
وہاں سے نکل کر یہ یقین ہو چلا کہ اب سفر شروع ہو گیا۔ لیکن نہیں۔ ابھی کچھ آزمائیشیں باقی تھیں۔
تاہم، قبولیت کی گھڑی تھی۔ مسئلے حل ہونا شروع ہو گئے۔ اور، بینک میں رقم بھی آگئی اور چھٹی بھی منظور ہوگئی۔ بس، اب لوگوں سے معافی تلافی کا وقت تھا۔ لہٰذا، کچھ کو فون کئے، کچھ کو اِی میل اور پھرFACE BOOK کا سہارا بھی لیا۔ جواب میں، بہت سے لوگوں نے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور دعاؤں کے لئے بھی کہا۔
اور اِنہی دعاؤں کے سہارے، ہم خدا خدا کرکے، خدا کے گھر روانہ ہوئے۔ وہاں کا حال۔ اب اگلی بار۔