گزشتہ ماہ سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز میں قتل ہونے والے صحافی عزیز میمن کی تحقیقات کے لئے قائم کی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کو صحافیوں کے پر زور مطالبے پر تبدیل کر دیا گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے جے آئی ٹی کا سربراہ ایسے پولیس افسر کو بنانے کے بعد یہ تحقیقاتی ٹیم متنازعہ ہوگئی تھی جس نے پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے سے قبل ہی محض کیمیائی تجزیات کی رپورٹس پر ہی واقعہ کو طبعی موت قرار دے دیا تھا۔
صحافی عزیز میمن کی تحقیقات کے لئے 6 مارچ کو سندھ حکومت کے محکمہ داخلہ نے ایڈیشنل آئی جی حیدرآباد ولی اللہ دل کی سربراہی میں نو رکنی ٹیم تشکیل دی تھی۔
تاہم، اس ٹیم کے سربراہ پر صحافیوں نے سخت اعتراضات کئے تھے، کیونکہ انہوں نے چند روز قبل ہی قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب تک کی دستیاب کیمیائی رپورٹس کے مطابق عزیز میمن کی موت میں تشدد یا زہرخورانی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ پولیس افسران کے مطابق وہ بلڈ پریشر اور ذیابیطس کا مریض تھا اس لئے غالب امکان ہے کہ میمن کی موت طبعی وجوہات کی بنا پر ہوئی ہے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں پولیس کے موقف کی نفی
تاہم، پولیس افسران کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ کے اگلے ہی روز سامنے آنے والی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عزیز میمن کی موت ان کا سانس رکنے کی وجہ سے ہوئی۔ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ محراب پور کے ڈاکٹر تحسین میمن اور ڈاکٹر زاہد شیخ کے دستخط سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عزیز میمن کا زندہ حالت میں سانس بند کیا گیا جس سے ان کی موت واقع ہوئی۔
جے آئی ٹی ہیڈ کی تقرری پر اعتراضات
6 مارچ کو صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹی فیکیشن کے تحت مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی۔ ایڈیشنل آئی جی حیدرآباد کی سربراہی میں قائم کی گئی نو رکنی کمیٹی کو عزیز میمن کے قتل کی تحقیقات اور اس کی وجوہات کے تعین کے لئے 15 روز کا وقت دیا گیا۔ تاہم، صحافی برادری کی جانب سے ایسے افسر کو ٹیم کا ہیڈ مقرر کرنے پر سخت اعتراض کیا گیا جس نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے موت کو طبعی قرار دیا تھا۔ جبکہ دوسرا اعتراض یہ بھی کیا گیا کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم میں فوجی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا کوئی نمائندہ شامل نہیں کیا گیا۔
ہفتے کی صبح ترجمان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صحافیوں کے اس مطالبے پر کہا کہ قتل کی تحقیقات کرنے والی ٹیم میں شامل افسران کو متاثرہ خاندان ہی کے کہنے پر رکھا گیا ہے۔ سید مراد علی شاہ نے صحافی برادری سے درخواست کی کہ واقعے کی تحقیقات ہونے دی جائے، تحقیقات مکمل ہونے تک کوئی متنازعہ بات نہ کی جائے۔ عزیز میمن کا خون کسی صورت ضائع ہونے نہیں دیا جائے گا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت نے ہمیشہ صحافت کی آزادی کو ممکن بنانے اور اختلاف رائے کا احترام کیا ہے۔
تاہم، شام کو محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری کئے گئے ایک اور نوٹی فیکیشن میں صحافیوں کے دونوں مطالبات تسلیم کرتے ہوئے جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی سے تعلق رکھنے والے ممبر کو بھی شامل کرنے کے ساتھ ٹیم کا ہیڈ ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن کو بنادیا گیا۔
صحافی عزیز میمن کا قتل کب ہوا؟
16 فروری کو نوشہرو فیروز کی ایک نہر سے سندھی روزنامہ کاوش سے وابستہ صحافی کی لاش ملی تھی جن کےگلے کے گرد تار بندھی ہوئی تھی۔ پولیس نے واقعے کی ایف آئی آر درج کرکے تحقیقات شروع کیں۔ لیکن بعض گرفتاریوں کے باوجود پولیس کو اب تک مبینہ قاتلوں کی گرفتاری میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔
یاد رہے کہ عزیز میمن نے مارچ 2019 میں اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے ٹرین مارچ کے دوران محراب پور میں استقبال کے لیے آنے والوں کو کرائے پر لایا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، استقبال کے لیے آنے والوں سے فی شخص دو ہزار روپے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن انہیں 200 روپے دیے گئے تھے۔ اس رپورٹ پر عزیز میمن کو بعض مقامی افراد کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملی تھیں مگر اس کے باوجود بھی انہیں کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔
عزیز میمن کے قتل کی پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے بھی مذمت اور واقعے کا نوٹس لیا گیا تھا۔ تاہم، 20 سے زائد روز گزر جانے کے باوجود بھی پولیس کی جانب سے اب تک کیس میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی ہے جس پر صحافی برادری میں تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ 56 سالہ عزیز میمن 30 سال سے لگ بھگ صحافت سے وابستہ تھے اور ان کے قتل پر نہ صرف ملکی بلکہ عالمی صحافتی تنظیموں نے بھی مذمت اور مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا تھا۔