امریکہ کے ڈیمو کریٹک سینیٹر ہیری ریڈ نے امریکہ سمیت چھ عالمی طاقتوں کے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ معاہدے کے تحت ایران خود پر عائد اقتصادی پابندیوں میں نرمی کے عوض اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرے گا۔
اتوار کو ایک بیان میں سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما ریڈ نے کہا کہ یہ معاہدہ ’’ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کا بہترین راستہ ہے۔‘‘
ان کی حمایت کے اعلان کے بعد کانگریس میں رپبلیکن پارٹی کے لیے اس معاہدے کا راستہ روکنے کے لیے درکار ووٹ حاصل کرنے کا امکان کم ہو گیا ہے۔ رپبلیکن پارٹی اور اسرائیل کا مؤقف ہے کہ اس معاہدے کے تحت ایران کو جوہری پروگرام جاری رکھنے کی اجازت دی جا رہی ہے جبکہ اس پر عائد پابندیوں میں نرمی سے اسے اربوں ڈالر تک رسائی حاصل ہو گی۔
ریڈ نے کہا کہ اس معاہدے کے لیے ان کی حمایت کی وجہ یہ ہے کہ اس کے مخالفین نے کوئی قابل عمل متبادل پیش نہیں کیا۔
’’یہ کہنا ایک تخیلاتی بات ہے کہ اگر کانگریس اس معاہدے کو مسترد کر دے تو انتظامیہ دوبارہ مذاکرات کر کے اس سے بہتر معاہدہ طے کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ یہ آپشن موجود نہیں اور ہمیں ایسا ظاہر نہیں کرنا چاہیئے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔‘‘
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی نے مذاکرات کے ذریعے معاہدے میں ایسی شرائط رکھی ہیں جو اسرائیل کو ایران کے ممکنہ جوہری خطرے سے محفوظ رکھیں گی۔
’’اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانا میرے لیے سب سے اہم ہے۔ میں اس معاہدے کی اس لیے حمایت کرتا ہوں کیونکہ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ یہ معاہدہ ایران کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو روک کر اسرائیلی ریاست کو محفوظ بنانے کا بہترین راستہ ہے۔‘‘
ایران طویل عرصہ تک اصرار کرتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام غیر فوجی مقاصد کے لیے ہے اور اس میں ہتھیاروں کا پروگرام شامل نہیں۔
معاہدہ طے ہونے سے قبل امریکی کانگریس نے ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت کانگریس کو معاہدہ طے ہونے کے بعد 60 دن کے اندر اس کا جائزہ لے کر اسے منظور یا مسترد کرنے کے لیے رائے شماری کا اختیار حاصل ہے۔ یہ مدت 17 ستمبر کو ختم ہو رہی ہے۔
مگر صدر اوباما یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر قانون سازوں نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا تو وہ اس کے خلاف صدارتی ویٹو استعمال کریں گے۔ ایوان نمائندگان اور سینیٹ اس ویٹو کو منسوخ کرنے کی کوشش کریں گے جس کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔
رپبلیکن پارٹی دونوں ایوانوں میں اکثریت رکھتی ہے مگر دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے اسے ڈیموکریٹک نمائندوں کی حمایت بھی درکار ہو گی۔