شام کے دس ہزار مہاجرین کی امریکہ میں آبادکاری

عراق اور شام کے مہاجرین کا ذکر کرتے ہوئے، جان کیری نے کہا ہے کہ ’’اِن اجڑے ہوئے لوگوں کو نئے سرے سے بسانے کا کام جاری ہے‘‘، اور صدر اوباما کے اہداف کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ اِس مالی سال کے دوران امریکہ 10000 شامی مہاجرین کو خوش آمدید کہے گا

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد دنیا کو ’’مہاجرین کا سنگین انسانی بحران درپیش ہے‘‘، جب شام، عراق اور دیگر مقامات سے اپنے گھر بار چھوڑ کر بیشمار لوگ دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’اِن اجڑے ہوئے لوگوں کو نئے سرے سے بسانے کا کام جاری ہے‘‘، اور صدر اوباما کے اہداف کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ اس مالی سال کے دوران امریکہ 10000 شامی مہاجرین کو خوش آمدید کہے گا۔

جان کیری نے یہ بات پیر کے روز واشنگٹن میں عید ملن پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

ساتھ ہی، اُنھوں نے کہا کہ شام کے بدترین انسانی بحران کو حل کرنے کی کوششیں جاری ہیں، جس غرض سے وہ گذشتہ سال نومبر میں ویانا گئے تھے، تاکہ مل کر کوئی حل تلاش کیا جائے، جس سلسلے میں ’انٹرنیشنل سیریا سپورٹ گروپ‘ جنگ بندی کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ جنیوا کے اجلاس میں امن کی راہ کھلنے کا سبب پیدا ہو۔

جان کیری نے مزید کہا کہ شام کی خانہ جنگی کے آغاز سے اب تک امریکہ نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 5.1 ارب ڈالر اعانت فراہم کی جاچکی ہے۔

اُنھوں نے اعلان کیا کہ امریکہ فوری طور پر مزید 43 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی نئی امداد فراہم کرے گا، جس سے داخلی طور پر بے گھر افراد کو تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور زندگی بچانے کے لیے غذا اور ادویات کی فوری فراہمی میسر آئے گی۔

امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ کے لیے یہ فخر کا معاملہ ہے کہ ہنگامی امداد کے حوالے سے ہم سب سے بڑے عطیہ دہندگان میں شمار ہوتے ہیں۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ ’’اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

شارق ظفر


بقول اُن کے ’’داخلی طور پر محصور شامیوں کی امداد کے لیے اب بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ مہاجرین کی مدد کا کام کرنےکی ضرورت ہے؛ شام کے ہمسائے جن میں لبنان، اردن اور ترکی شامل ہیں۔۔۔ اُن کی مدد کا کام کیا جانا باقی ہے؛ جب کہ اِس اذیت ناک تنازع کے حل کے لیے زیادہ مؤثر کوششیں کی جانی چاہئیں جن کے باعث بیشمار لوگ ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ بہت سارے لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں‘‘۔

اُنھوں نے بتایا کہ صدر پیوٹن اور وزیر خارجہ لاوروف سے ملاقات کے لیے وہ بدھ کے روز ماسکو روانہ ہو رہے ہیں، تاکہ شام کے معاملے پر درکار کام کیا جاسکے جس کی لوگوں کو ہم سے امید ہے۔

بقول اُن کے، ’’آپ سے میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ ہم شام میں مشکلات کے حل میں مدد دینے کے لیے جو کچھ ہمارے بس میں ہوا، کریں گے۔ ہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مزید علاقوں تک رسائی ممکن بنانے کے لیے کام کریں گے۔ ہم سیاسی حل کی تلاش کا کام کریں گے جو تشدد کی کارروائیاں روکنے کے لیے درکار ہے، تاکہ بے دخل خاندان واپس جا کر اپنی معمول کی زندگی گزار سکیں۔‘‘

Your browser doesn’t support HTML5

شامی مہاجرین کا شمار

اُن کا کہنا تھا کہ ماسوائے سیاسی تصفیے کے، بالآخر لڑائی کا اور کوئی حل نہیں۔

شہری سفارت کاری کے تصور کی نشاندہی کرتے ہوئے، جان کیری نے کہا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ بنیادی اقدار کو اجاگر کیا جائے، جو ہماری کمیونٹیز اور دنیا بھر کے لیے مثبت بہتری لا سکے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ میں بسنے والے تمام مسیحی، یہودی اور مسلمان سبھی امن اور خوش حالی اور اعلیٰ اقدار کی سربلندی میں یقین رکھتے ہیں۔
داخلی تشدد کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ جب ٹیکساس میں ایک مسجد پر حملے کا واقعہ سامنے آیا تو ایک سات برس کے بچے نے اپنی چھوٹی سی بچائی ہوئی تمام رقم عطیہ کی؛ جب کہ اورلینڈو شوٹنگ کے بعد، مسلمان رہنماؤں کے اتحاد نے مل کر دو ہفتوں میں 75000 ڈالر رقم اکٹھی کرکے چندے میں دی۔
اُنھوں نے کہا ماہِ رمضان بابرکت مہینہ ہے جب روزیدار نماز روزے کے ساتھ ساتھ خیراتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ وہ ثقافتی گلدستے کی مانند ہیں جو رواداری، رحمدلی، سب کے ساتھ مل کر چلنے اور کھلے پَن کے درس کے مظاہرے پر زور دیتے ہیں۔
اُنھوں نے نامور باکسر، محمد علی کا ذکر کیا اور کہا کہ مرحوم اس بات میں یقین رکھتے تھے کہ کوئی بھی چیز ناممکن نہیں۔

اس سے قبل، امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے مسلمان کمیونٹی، شارق ظفر نے اپنے افتتاحی کلمات ادا کیے، جس مین اُنھوں نے مسلمان امریکیوں کی جانب سے ملک کے تمام شعبہ جات میں محنت اور لگن سے کام کرنے کا تفصیلی ذکر کیا۔