کیرالہ کی حکومت نے شہریت قانون سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا

فائل فوٹو

بھارت کی ریاست کیرالہ کی حکومت نے شہریت قانون ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ اعلیٰ عدالت میں پہلے ہی اس حوالے سے 60 درخواستیں زیرِ سماعت ہیں۔

شہریت قانون ترمیمی ایکٹ کے خلاف بھارت کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جب کہ ریاست کیرالہ کی حکومت پہلی ریاستی حکومت نے جس نے نئے قانون کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا ہے۔

کیرالہ حکومت کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ شہریت قانون آئین کی متعدد دفعات کے خلاف ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ نیا قانون آئین کے بنیادی اصول سیکولر ریاست کے تشخص کو متاثر کرتا ہے اور اس سے شہریوں کے مساوی حقوق بھی متاثر ہوتے ہیں۔

کیرالہ کی حکومت نے پاسپورٹ قانون اور فارنرز آرڈر کو بھی چیلنج کیا ہے جس کے تحت 2015 سے قبل پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھارت آ کر رہنے والے غیر مسلموں کو شہریت دینے کی منظوری دی گئی ہے۔

کیرالہ حکومت کی درخواست کے مطابق شہریت ترمیمی ایکٹ آئین کے آرٹیکل 14، 21 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔

یاد رہے کہ بھارت کے آئین کا آرٹیکل 14 مساوی حقوق سے متعلق ہے جب کہ آرٹیکل 21 کہتا ہے ہر شہری ذاتی حیثیت میں آزاد ہے اور اسے ذاتی آزادی سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور آرٹیکل 25 کے مطابق تمام شہری آزادی اظہار کے یکساں حق دار ہیں۔

سپریم کورٹ میں مختلف سیاسی جماعتوں، غیر سرکاری تنظیموں اور ارکان اسمبلی نئے شہریت قانون کو عدالت میں چیلنج کر چکے ہیں۔

سپریم کورٹ مذکورہ درخواستوں پر 22 جنوری کو سماعت کرے گی۔

شہریت قانون اور اس کی مخالفت

بھارت کی پارلیمان نے 12 دسمبر کو ایک بل منظور کیا تھا جس کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے 'مذہب کی بنیاد پر ستائے گئے' چھ مذاہب کے افراد کو بھارت کی شہریت دینے کی منظوری دی گئی تھی۔ اس فہرست میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔

اس بل کو بھارت کی حزب اختلاف کی جماعتیں بھارت کا سیکولر تشخص مسخ کرنے کے مترادف قرار دے رہی ہیں۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ مذہب کی بنیاد پر بھارت کی نظریاتی اساس کو متاثر کر رہی ہے۔

مذکورہ بل کے خلاف بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سمیت اتر پردیش، آسام اور دیگر ریاستوں میں پرتشدد ہنگاموں کے نتیجے میں درجنوں افراد بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔