بنگلہ دیش: اسلام کو سرکاری مذہب برقرار رکھنے پر ملا جلا ردعمل

بنگلہ دیش کی مذہبی تنظیم کے رہنما عدالت کے فیصلے کے بعد فتح کا اشارہ کرتے ہوئے۔ 28 مارچ

عدالت کی طرف سے درخواست کی سماعت نہ کیے جانے پر اقلیتی برادری کے رہنماؤں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

بنگلہ دیش ہائی کورٹ کی جانب سے ایک 28 سال پرانی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد ملک میں ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا گیا جس میں اسلام کا بطور سرکاری مذہب درجہ ختم کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

جیسے ہی درخواست کی سماعت شروع ہوئی تین ججوں پر مشتمل بینچ نے اسے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ اس سیکولر تنظیم کو عدالت میں ایسی درخواست دائر کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں جس نے اپنا اندراج بھی نہیں کروا رکھا۔

عدالت کی طرف سے درخواست کی سماعت نہ کیے جانے پر اقلیتی برادری کے رہنماؤں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

بنگلہ دیش ہندو بدھسٹ یونیٹی کونسل کے جنرل سیکرٹری رانا داس گپتا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’یہ بات افسوس ناک ہے کہ عدالت نے درخواست گزاروں کو اپنے دلائل پیش کرنے کی اجازت دیے بغیر ہی درخواست کو مسترد کر دیا۔ اس فیصلے سے ملک کے اسلام پسند حلقوں کو تقویت ملے گی اور یہ بنگلہ دیش کی تمام مذہبی اقلیتوں کے لیے ایک افسوسناک دن ہے۔‘‘

تاہم مذہبی تنظیموں جنہوں نے حال ہی میں دھمکی دی تھی کہ اگر اسلام کا سرکاری مذہب کا درجہ ختم کیا گیا تو وہ ملک بھر میں مظاہرے کریں گے، کا کہنا ہے کہ وہ پیر کو دیے جانے والے فیصلے سے خوش ہیں۔

’حفاظت اسلام‘ نامی ایک تنظیم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ تازہ ترین فیصلہ ملک میں اسلام مخالف نظریات پھیلنے سے روکے گا۔

چٹاگانگ میں حفاظت اسلام سے تعلق رکھنے والے مولانا انور حسین ربانی نے کہا کہ ’’بنگلہ دیش میں اکثر مسلمان چاہتے ہیں کہ اسلام سرکاری مذہب رہے۔ اگر ہائی کورٹ فیصلہ دیتی کہ اسلام کا سرکاری مذہب کا درجہ ختم کر دیا جائے تو پورے ملک میں مسلمانوں نے غصے سے پھٹ پڑنا تھا۔‘‘

1971ء میں بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے بعد ملک کو سیکولر قرار دے دیا گیا تھا۔

1988 میں فوجی آمر حسین محمد ارشاد نے سیاسی جماعتوں کی طرف سے انہیں اقتدار سے الگ کرنے کی مہم کے دوران عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے اسلام کو سرکاری مذہب قرار دے دیا۔

اس کے فوراً بعد 15 سیکولر سرگرم کارکنوں نے ایک درخواست دائر کی تھی جس میں مؤقف اخیتار کیا گیا تھا کہ اسلام کو سرکاری مذہب کا درجہ دینا بنگلہ دیش کے سیکولر آئین کے منافی ہے اور مذہبی اقلیتوں سے امتیاز ہے۔

اگرچہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے 2011 میں ایک مرتبہ پھر سیکولرزم کو ملک کا سیاسی معیار قرار دیا تھا مگر اسلام کو سرکاری مذہب رہنے دیا تھا۔

گزشتہ جمعہ حفاظت اسلام کے ہزاروں کارکنوں نے ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست پر سماعت کا فیصلہ کرنے پر ڈھاکہ میں مظاہرے کیے۔ ملک کی سب سے بڑی مذہبی تنظیم جماعتِ اسلامی نے پیر کو ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے درخواست کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

پیر کا فیصلہ آنے کے بعد ان دونوں تنظیموں کے رہنماؤں نے کہا کہ عدالت مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ ہے اس لیے اس نے درخواست مسترد کر دی۔

اگرچہ بنگلہ دیش کا سرکاری مذہب اسلام ہے مگر آئین دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے دین پر عمل کرنے کی مکمل اجازت دیتا ہے۔

تاہم حالیہ مہینوں میں بنگلہ دیش میں مذہبی اقلیتوں، بلاگ مصنفوں اور غیر ملکیوں پر حملے کیے گئے ہیں۔ شدت پسند گروپ داعش نے ان میں سے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ مقامی مذہبی شدت پسند تنظیموں نے حزب اختلاف کی جماعتوں کی ایما پر یہ حملے کیے۔