’بندر روڈ سے کیماڑی۔۔ میری چلی ہے گھوڑا گاڑی۔۔ بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر۔۔“ احمد رشدی کے اس سریلے گانے کوآپ نے بہت مرتبہ سنا ہوگا، اسے پہلی مرتبہ ریلیز ہوئے برسوں بیت گئے لیکن آج بھی” کیماڑی“ کے ذکرپر اس کی یاد ضرور آتی ہے۔ یہ وہی کیماڑی ہے جہاں سے کراچی کے قریبی تفریحی جزیرے ”منوڑا“ جانے کے لئے کشتیوں میں سوار ہوا جاتا ہے۔
کیماڑی سے منوڑا تک کشتی کے ذریعے طے کیا جانے والا یہ سفر گوکہ چند منٹوں کا ہے لیکن کس قدر ’رسکی‘ ہے یہ دیکھ کرہی اوسان خطا ہوجاتے ہیں ۔
اس سفر کی ابتدا ہوتی ہے خشکی سے ساحل کے پانی تک اترتی سیڑھیوں سے۔ پرانی اور بوسیدہ لکڑی کی ہلتی ہوئی سیڑھیاں جن پر قدم رکھتے ہی پورا جسم لرز جاتا ہے۔ پھر زینے پر جمی ہوئی کائی کی موٹی موٹی تہوں پر پھسلنے کا خوف ۔۔پہلی دفعہ سفر کرنے والوں کا خون خشک کردینے کے لئے کافی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت میں ایک بزرگ رشید بابا نے بتایا ” ان سیڑھیوں کی عمر تقریباً 70سال ہوگئی ہے۔ اتنے سالوں میں تو انسان بھی لڑکھڑانے لگتا ہے یہ تو پھر بے جان شے ہے۔“
سیڑھیوں سے بچ کر نیچے آبھی گئے تو پانی پر بل کھاتی کشتیوں میں سوار ہونا بھی کسی امتحان سے کم نہیں۔ ذرا سا لڑکھڑائے نہیں کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں احتیاط لازمی ہے کیوں کہ ماضی میں بھی کئی مواقوں پرمتعدد افراد جیٹی سے سمندر میں گر چکے ہیں جنہیں مقامی غوطہ خوروں نے بچاتو لیا مگر کافی جدوجہد کے بعد۔ اکثر اوقات ریسکیو غوطہ خوریہاں موجود بھی نہیں ہوتے۔
سمندر کے سینے پر کلانچیں بھرتی بیشتر کشتیاں اور موٹر بوٹس بھی 30 سے 50 سال پرانی اور خستہ حال ہیں۔ ان پر گنجائش سے زیادہ مسافروں اور سامان کی لوڈنگ کسی خطرے سے کم نہیں ۔
کیماڑی موٹر بوٹ ایسوسی ایشن کے رہنما محمد رفیق کا کہنا ہے”تفریح کیلئے منوڑہ جانے والے ہزاروں افراد کو ہر روز رسک اٹھانا پڑتا ہے ، اس سے پہلے کہ خدانہ خواستہ کوئی بڑا سانحہ ہو متعلقہ ادارے کیماڑی سے منوڑہ تک کے سفر کو ’رسک فری‘ بنانے پر فوری توجہ دیں “
اس سفر پر جانے والے ایک مسافرکاکہنا ہے ”ہم لوگ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کرکشتیوں میں سوار ہوتے ہیں۔۔جن کی حالت بہتر بنانے اور اس حوالے سے سخت قواعد و ضوابط تشکیل دینے کی ضرورت ہے جن پر کشتی یا موٹر بوٹ مالکان کوبھی سختی سے عمل کرنا لازمی ہے۔“
اتوار و دیگر چھٹیوں اور تہواروں پر کیماڑی سے تفریح کے لئے منوڑا جانے والوں کا رش ڈبل،ٹرپل ہوجاتا ہے اور جس قدر رش ہوتا ہے اندیکھے حادثات کا رسک اسی قدر زیادہ ہوجاتا ہے ۔لیکن منوڑا میں مستقل رہائش رکھنے والے افراد کے ساتھ ساتھ پکنک پر جانے والے افراد بھی شاید بہت زیادہ نڈر ہوگئے ہیں یا پھر اسی صورتحال کے ’عادی‘ ہوگئے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام رسک اٹھانے کے باوجود کیماڑی سے منوڑا سفر کرنے والوں کی تعداد میں عرصے سے کوئی کمی نہیں آئی ہے۔
ساحل پرہواوٴں سے کھیلتی لہروں اور دور، دور تک پھیلے سمندر کو دیکھنے کا شوق صدیوں سے انسانی دلچسپی کی انتہا کو چھوتا آیا ہے۔ کراچی کے ساحلوں سے جڑے بحیرہ عرب کو دیکھنے کے لئے پورے پاکستان کے لاکھوں اورکروڑوں افراد کراچی کے ساحلوں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے میں متعلقہ اداروں کی ذمے داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ یہاں آنے والوں کی سیفٹی اور سیکورٹی کے لئے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے جائیں۔