آنے والا ننھا شاہی مہمان تاج برطانیہ کا جانشین ہوگا

سلطنت برطانیہ کی جانشینی کے نئے قانون کی رُو سے اگر شہزادہ ولیم اور شہزادی کیتھرین میڈیلٹن کی پہلی اولاد لڑکی ہوئی تو اسے مستقبل کی ملکہ تصور کیا جائے گا۔
برطانوی قانون ساز ادارے نے سلطنت برطانیہ کی جانشینی کے نئے قانون کی منظوری دے دی ہے جس کی رو سے شہزادہ ولیم اور شہزادی کیتھرین میڈیلٹن کی پہلی اولاد اگرلڑکی ہوئی تو اسے مستقبل کی ملکہ تصور کیا جائے گا۔

اس قانون میں تاج برطانیہ کےجانشین کی رومن کیتھولک فرقےمیں شادی کرنے کی ممانعت جیسی پابندی کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔

پیر کی شب ہاؤس آف لارڈ (ایوان زیریں) نے تاریخی کراؤن بل میں جانشینی سے متعلق ترمیمی قانون کومنظور کر لیا ہے۔ اس قانون کو محض تین ماہ کی مدت میں دونوں پارلیمان سے منظوری حاصل ہوئی ہے تاکہ شہزادی کیٹ کے گھرجولائی میں پیدا ہونے والے بچے کی ولادت سے قبل جانشینی کا نیا قانون رائج کیا جا سکے۔
توقع کی جارہی ہے کہ ملکہ برطانیہ چند ہی روزمیں اس قانون پر اپنی رضامندی کی مہرثبت کر دیں گی جس کے بعد جانشینی کا نیا قانون نافذالعمل ہوجائےگا۔

ملکہ برطانیہ کو کامن ویلتھ کے پندرہ ملکوں میں سربراہ مملکت کی حیثیت حاصل ہےلہذا ان تمام ملکوں میں سے کینڈا نے نئے قانون کوخوش آمدید کہتے ہوئے اسےاپنے قانون کا حصہ بنا لیا ہے جبکہ بقیہ ممالک بھی جلد ہی اسے باقاعدہ طور پر اپنے قانون میں شامل کرلیں گے۔

برطانوی نائب وزیراعظم نک کلیگ نے جنھوں نےجانشینی کے نئے قانون کو ہاؤس آف لارڈ میں پیش کیا تھا کہا، 'یہ ایک تاریخی موقع ہے مجھے فخر ہے کہ آج برطانوی پارلیمان نے صدیوں پرانی مذہبی اور جنسی بنیاد پر پائی جانے والی منافرت کے خاتمے کے لیے ایک اہم قدم اٹھایا ہے ۔'

گذشتہ برس ملکہ برطانیہ نے ایک خصوصی حکم نامےکے تحت یہ اعلان کیا تھا کہ شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ کے تمام بچوں کو شاہی لقب سے نوازا جائے گا یعنی ملکہ برطانیہ مستقبل کی ملکہ کے لیے پہلے سے ہی اس کے شایان شان شہزادی کے لقب کا تجویز کر چکی ہیں۔

'کراؤن بل' ایک قدیم قانون ہے جس میں ترمیم کی کوششوں آغازاس وقت ہوا جب وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے گذشتہ برس اکتوبر کے مہینے میں اعلان کیا کہ برطانیہ سمیت کامن ویلتھ کے تمام ممالک جانشینی کے قانون میں ردوبل کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ قدیم اور فرسودہ روایات کو ختم کیا جائے تا کہ شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ کی پہلی اولاد اگر بیٹی ہو تواسے بادشاہت کے حق سے محروم نہ رکھا جا سکے۔ آسٹریلیا میں ہونے والے کامن ویلتھ کے اجلاس میں اسے تمام ممالک کی رضا مندی سے ایک معاہدے کی شکل دی گئی جس کے بعد ہی اسے مزید کارروائی کے لیے برطانوی پارلیمان ہاؤس آف کامن اورآخری مرحلے میں ہاؤس آف لارڈ میں پیش کیا گیا تھا۔

تاج برطانیہ کی منتقلی کا قانون 1917 میں بادشاہ جارج پنجم نے بنایا تھا جس کے مطابق سلطنت برطانیہ کی جانشینی کا حق صرف مردوں کو دیا گیا تھا جوخاندان کے پہلے بیٹےکی پہلی اولاد کو ہی منتقل کیا جاسکتا تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ شاہی خاندان کی بیٹیوں کے لیے لیڈی کا لقب استعمال کیا جاتا ہےجبکہ بیٹوں کو شہزادے کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس قانون میں تاج برطانیہ کے جانشین کے لیے رومن کیتھولک فرقے میں شادی کرنے پر بھی پابندی عائد تھی۔