متحدہ عرب امارات میں کشمیری تارکینِ وطن کا دلچسپ اجتماع

کشمیر سپر لیگ کا فائنل۔ 24 مارچ 2017

اپنے وطن میں آزمائشوں کے نہ ختم ہونے والے سِلسلے اور اہلِ وطن کی بے بسی و بے چارگی نے انہیں بھلے ہی اندر سے اُداس کردیا ہو، لیکن آج ان کے چہرے ہشاش بشاش نظر آرہے تھے اور یوں لگتا تھا کہ موقع اور ماحول ان پر مکمل طور پر حاوی ہوچکے ہیں۔

وادئ کشمیر سے تقریبا" دو ہزار میل دور، سینکڑوں کشمیری جن میں رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس بچے اور خواتین کی ایک اچھی خاصی تعدار بھی شامل تھی جمعہ کو یہاں دبئی کے انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں جمع ہوگئے تھے۔ کشمیر سُپر لیگ یا 'کے ایس ایل ' کا فائنل دیکھنے کے لئے۔

نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے چالیس سے زائید قلم کار، شعراء، صحافی، ڈرامہ نگار، آرٹسٹ، وکلاء، تاجر اور دوسرے کاروباری اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے سرگرم افراد بھی لمبی مسافت طے کرکے مُقابلہ دیکھنے اور 'کے ایس ایل' کی اختتامی تقریب میں شرکت کرنے کے لئے یہاں پہنچ گئے تھے۔ غیر سرزمین پر کشمیری تارکینِ وطن کی طرف سے اس طرح کے کرکٹ ٹورنامنٹ اور تقریب کا اہتمام پہلی بار کیا گیا تھا۔

فائنل رازے کدل سُپر ہیروز اور راج باغ اسپورٹس کے درمیان کھیلا گیا اور ٹی 20 کے اس جوشیلے اور دلچسپ مقابلے میں راج باغ اسپورٹس نے رازے کدل سُپر ہیروز کو چھہ وکٹ سے شکست دیدی۔ ان دو ٹیموں ہی کی طرح ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے والی تمام ٹیموں کے نام وادئ کشمیر کے فراموش شدہ پلوں، جھیلوں، گلابہ، صوفی درگاہوں، ملی باغوں اور دوسرے تاریخی اور ثقافتی مقامات پر رکھے گئے ہیں۔

جمعہ کو جب فائنل کھیلا گیا اسٹیڈیم مِنی یا چھوٹا کشمیر نظر آیا

ایک برس قبل وادی کشمیر کے چند پُر جوش افراد نے انفرادی، سیاسی اور مذہبی نظریات اور سوچ سے بالاتر ہوکر 'کے ایس ایل' کی بُنیاد ڈالی تھی تاکہ متحدہ عرب عمارات اور جنوب مغربی ایشیاء کے دوسرے حصوں میں کشمیر کی ثقافت اور ورثے کو فروغ دیا جاسکے ، یہاں کام کرنے اور کرکٹ کے کھیل میں دلچسپی رکھنے والے کشمیری نوجوانوں اور دوسرے تارکینِ وطن کی حوصلہ افزائی کی جاسکے اور اسکے ساتھ ساتھ وہ اپنے وطن یعنی وادئ کشمیر سے دوبارہ مربوط ہوسکیں۔

منتظمین کا اصرار ہے کہ ان کی یہ کوشش مکمل طور پر غیر سیاسی ہے اور انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ یہ عمارات میں پہلے سے کام کرنے والے اوربہتر روزگار کی تلاش میں آئے ہوئے کشمیری نوجوانوں کے لئے کایا پلٹنے والا ذریعہ بن چکی ہے۔ 'کے ایس ایل' کی سرگرمیوں میں پیش پیش کشمیری تاجر شیخ فیروز احمد نے بتایا کہ ٹورنامنٹ ہی کی بدولت وزیٹر ویزا پر دبئی آئے ہوئے پچاس سے زائد کشمیری نوجوانوں کو گزشتہ دنوں یہاں کی چند بڑی کمپنیوں میں کام مل گیا۔

عنایت فاضلی نے جو 'کے ایس ایل' کے منیجمنٹ اور انٹرپرائیز منیجر ہیں کہا کہ کوشش کا آغاز تقریبا" ایک برس پہلے اُن کشمیری نوجوانوں اور اُبھرتے ہوئے کرکٹ کھلاڑیوں کو اکٹھا کرنے سے ہوا تھا جو دبئی کے آئی ٹی، ٹیلی کام اور بزنس منیجمنٹ سیکٹروں میں کام کررہے ہیں ۔ ابتداء میں صرف چار ٹیموں نے ٹی20 ٹورنامنٹ میں حصہ لیا تھا اور پہلے یہ ڈری ہومز سُپر لیگ کہلائی کیونکہ ڈری ہومز نامی جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والی ایک کمپنی اس کی کفالت کررہی تھی۔ لیکن بعد میں بہت سے پُرجوش کشمیری سامنے آگئے اور اس سال کھیلے جانے والے 'کے ایس ایل' سیزن ٹو میں 224 کھلاڑیوں پر مشتمل چودہ ٹیموں نے حصہ لیا۔ سیزن ٹو کا افتتاح بھارتی قومی کرکٹ ٹیم میں شامل کشمیری کھلاڑی پرویز رسول نے 6 جنوری کو کیا تھا۔ جب سے دوبئی کے مرکز سے تیس کِلو میٹر دور اجمان اوؤل اسٹیڈیم میں ہر جمعہ کو جو عمارات میں ہفتہ وار چھٹی کا دِن ہے اور دوسرے منتخبہ دِنوں پر انڈین پریمئر لیگ یا آئی پی ایل اور پاکستان سپر لیگ یا پی ایس ایل جیسے لمحات کی تجدید کی گئی۔ ان موقعوں پر اور با الخصوص اس جمعہ کو جب فائنل کھیلا گیا اسٹیڈیم مِنی یا چھوٹا کشمیر نظر آیا۔ نہ صرف فائنل مقابلے کی کمنٹری کشمیری زبان میں نشر کی گئی بلکہ منتظمین، بعض کھلاڑیوں اور میچ دیکھنے اور اختتامی تقریب میں آئے ہوئے لوگوں نے کشمیری ثقافت کو اُجاگر کرنے کے لئے کئی طرح کی سرگرمیوں اور کارروائیوں میں منظم یا اتفاقی انداز میں حصہ لیا۔