پاکستانی کشمیر میں سینکڑوں اسکول تعمیر نو کے منتظر

  • روشن مغل
ان اسکولوں کی تعمیر نہ ہونے کے باعث دو لاکھ سے زائد بچے شدید موسموں میں بھی تاحال بوسیدہ خیموں، عارضی پناہ گاہوں یا کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اکتوبر 2005ء میں آنے والے زلزلے میں تباہ ہونے والے سینکڑوں اسکول فنڈز کی کمی اور عدم دستیابی کی وجہ سے تاحال تعیمر نو کے منتظر ہیں جب کہ ان علاقوں میں لاکھوں بچے خیموں اور کھلے آسمانوں تلے علم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔

پاکستانی کشمیر میں بحالی و تعمیر نو کے ادارے سیرا کے مطابق زلزلے سے یہاں تقریباً 2800 اسکول متاثر ہوئے تھے جن میں زیادہ تعداد پرائمری اور مڈل اسکولوں کی تھی۔ ان میں تاحال صرف 1100 کی تعمیر مکمل ہوسکی ہے جب کہ 700 اسکولوں کی تعمیر نو میں پیش رفت نہیں ہوسکی۔

ایک زیر تعمیر اسکول تکمیل کا منتظر

سیرا کے ڈائریکٹر طارق بٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو برسوں میں آنے والے سیلابوں کی وجہ سے بہت سے بہت سے فنڈز سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں صرف ہوگئے اور اسی بنا پر اسکولوں کی تعمیر کے منصوبے کے لیے درکار رقم کی دستیابی میں فی الحال دقت کا سامنا ہے۔

طارق بٹ نے بتایا کہ ان اسکولوں کی تعمیر نہ ہونے کے باعث دو لاکھ سے زائد بچے شدید موسموں میں بھی تاحال بوسیدہ خیموں، عارضی پناہ گاہوں یا کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔

سیرا کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ مالی مشکلات کی وجہ سے اب ان کے ادارے کے صدر دفتر ایرا نے بین الاقوامی امدادی اداروں سے رابطے کرنا شروع کیے ہیں تاکہ جلد از جلد اسکولوں کی تعمیر کو ممکن بنایا جاسکے۔

خیموں میں زیر تعلیم بچے

’’ مختلف بین الاقوامی امدادی اداروں کو اور عطیہ دینے والے اداروں کو تجاویز دی گئی ہیں کہ وہ یا تو فنڈز فراہم کریں یا از خود پراجیکٹ مینیجمنٹ یونٹ قائم کرکے ہمیں یہ اسکول مکمل کرکے دے دیں۔‘‘

آٹھ اکتوبر 2005ء میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں آنے والے طاقتور ترین زلزلے میں 75 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے جن میں بڑی تعداد ان بچوں کی تھی جو اسکولوں کی عمارتیں منہدم ہونے سے ان کے تلے دب کر ہلاک ہوگئے تھے۔