مسئلہ کشمیر پر موقف میں تبدیلی کی قیاس آرائیاں مسترد

سابق سفارت کار اشرف جہانگیر قاضی نے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر بھارت کے موقف میں کوئی لچک نہیں آئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں اس معاملے پر سخت گیر نقطہ نظر رکھنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے جس سے بات چیت کے ذریعے اس تنازع کے حل کی کوششوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ ایک سال کے دوران ہونے والے مذاکرات میں عہدیدار مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون پر نمایاں پیش رفت کا اعلانات کر چکے ہیں۔

اعلیٰ سطحی مذاکرات میں جن اُمور پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اُن میں عوامی رابطوں اور تجارت کا فروغ سرِفہرست ہیں۔ بھارت کے اقتصادی مرکزی ممبئی میں نومبر 2009ء میں دہشت گرد حملوں کے بعد دو برس سے زائد عرصے تک اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان معطل رہنے والے امن مذاکرات کا عمل فروری 2011ء میں بحال ہوا تھا۔

امن عمل کی بحالی کے بعد دونوں ممالک کے وزرائے اعظم، خارجہ امور اور وزارئے تجارت کے علاوہ اعلیٰ سطحی مذاکرات کے کئی دو ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں بعض حلقوں کا خیال ہے کہ بھارت سے تعلقات میں بہتری کی کوششوں کے دوران اسلام آباد کشمیر کے درینہ تنازع پر اپنے روایتی موقف سے بظاہر پیچھے ہٹ گیا ہے۔

لیکن وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے اس تاثر کی صریحاً نفی کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور نا ہی حقیقتاً ایسا کرنا ممکن ہے کیوں کہ کشمیری عوام کو اُن کے حق خود ارادیت سے کسی بھی صورت محروم نہیں کیا جا سکتا۔

’’بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے پاکستان اقدامات کر رہا ہے لیکن حتمی منزل کا حصول کشمیری عوام کی امنگیں پوری ہونے سے ہی مشروط ہے‘‘۔

اسلام آباد میں قائم ’انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز‘ یا آئی ایس ایس آئی میں منعقد ہونے والے حالیہ مذاکرے میں مبصرین کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے قابل قبول حل کی جانب کسی پیش رفت کی عدم موجودگی میں ضروری ہے کہ بھارت سے اچھے تعلقات کے بارے میں پاکستانی حلقوں میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔

ادارے کے سربراہ اور سابق سفارت کار اشرف جہانگیر قاضی نے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر بھارت کے موقف میں کوئی لچک نہیں آئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں اس معاملے پر سخت گیر نقطہ نظر رکھنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے جس سے بات چیت کے ذریعے اس تنازع کے حل کی کوششوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

مذاکرے میں شریک ایک اور سابق سفارت کار نجم الدین شیخ نے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر کئی دہائیوں سے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے، اور پاکستان اور بھارت کو اپنے سیاسی و اقتصادی حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس کی طرح وہ عوامی مسائل کے حل کی جانب بڑھ سکیں گے۔