بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کے متنازع ہمالیائی خطے کے مکینوں پر زور دیا ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلیں اور مقامی انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالیں۔
اُنھوں نے جمہوریت کے دفاع کے لیے فوج کی خدمات کو سراہا؛ اور پیر کے روز ’سبما‘ کے قصبے میں انتخابی مہم کے سلسلے میں نکالی گئی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ،’اُن کی قربانیوں کی حرمت کا تقاضا ہے کہ آپ لازمی طور پر اپنا ووٹ ڈالیں‘۔
مسٹر مودی نے جمعے کے روز ہونے والے باغیوں کے حملوں کی بھی مذمت کی، جِن میں 21 افراد ہلاک ہوئے، جِن میں 11 سکیورٹی اہل کار بھی شامل ہیں۔
پچیس نومبر کو جب بھارتی زیر انتظام کشمیر میں پانچ مرحلوٕں میں منعقد ہونے والے مقامی انتخابات کا آغاز ہوا، شدت پسند حملوں میں تیزی آئی ہے۔ علیحدگی پسند راہنماؤں کی طرف سے پولنگ کے بائیکاٹ کی کال کے باجود، ووٹ دینے والوں کی تعداد خاصی زیادہ رہی ہے۔
مسٹر مودی کےبھارتی زیر انتظام کشمیر کے دورے کے لیے نئی دہلی نے ہزاروں کی تعداد میں فوج کو تعینات کر رکھا ہے۔
سری نگر کا مرکزی شہر، جہاں وزیر اعظم پیر کی شام خطاب کرنے والے ہیں، وہاں ’نشانچیوں‘ (شارپ شوٹرز) کو، گھروں کی چھتوں پر تعینات کیا گیا ہے۔
بھارت اور پاکستان دونوں سارے کشمیر پر دعوے دار ہیں، جسے لائن آف کنٹرول تقسیم کرتا ہے، جو ہی فی الواقع سرحد ہے۔
جمعے کے روز بدترین حملے ہوئے، جس میں اے کے 47 رائفلوں سے مسلح شدت پسندوں نے اُڑی کے فوجی کیمپ پر راکیٹ سے گرنیڈ داغے۔
یہ کیمپ لائن آف کنٹرول پر واقع ہے جہاں کشمیر میں بھارت اور پاکستان جدا ہوتے ہیں۔
فوجی اہل کاروں نے اِسے ایک خودکش حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فائرنگ کے تبادلے میں چھ شدت پسند ہلاک ہوئے۔
سنہ1989 سے، باغی گروہ کشمیر میں بھارتی حکمرانی کے خلاف لڑتے چلے آ رہے ہیں۔
اس کشیدگی اور بھارتی فوج کی طرف سے ’کریک ڈاؤن‘ کے نتیجے میں اب تک 68000 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جس کے باعث باغی سرگرمیوں کو بڑی حد تک دبا دیا گیا ہے۔
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے تشدد کی کارروائی کے لیے نئی دہلی شدت پسندوں پر الزام عائد کرتا ہے، جو، بقول اُس کے، متنازع کشمیر کے پاکستانی زیر انتظام طرف سے داخل ہوتے ہیں، جس الزام کو پاکستان مسترد کرتا ہے۔