بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک ہفتے سے جاری لاک ڈاؤن پیر کو عید الاضحیٰ کے روز بھی برقرار ہے اور عید کی نماز سخت پہرے میں ادا کی گئی ہے۔
کشمیر میں انتظامیہ کی جانب سے بڑی مسجدوں میں نماز ادا کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی لہٰذا لوگوں نے محلّوں اور قریبی مساجد میں نمازِ عید ادا کی۔
عید الاضحیٰ کی نماز کے بعد سری نگر کی بیشتر گلیاں اور سڑکیں سنسان رہیں اور لوگ نمازِ عید ادا کر کے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
نماز کے بعد کشمیر پولیس نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ عید کی نماز پر امن انداز میں ادا ہوئی اور کہیں بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
بھارت کی وزارتِ داخلہ کی ترجمان وسودھا گپتا نے کشمیر کے مختلف علاقوں میں نمازِ عید کی ادائیگی کی تصاویر جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ انت ناگ، بارہ مولہ، بڈگام اور باندی پورہ وغیرہ کی مسجدوں میں پرامن انداز میں عید کی نماز ادا کی گئی ہے۔
ان کے بقول جموں کی عید گاہ میں ساڑھے چار ہزار سے زائد افراد نے نماز ادا کی ہے۔
واضح رہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی ریاستی حیثیت کے خاتمے کے بعد یہ وہاں کی پہلی عید تھی۔
کشمیر کے بیشتر علاقوں میں گزشتہ ہفتے سے سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات ہیں۔ بعض علاقوں میں کرفیو نافذ ہے۔ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سمیت مواصلات کے تمام ذرائع بدستور بند ہیں۔
سری نگر کے ضلعی مجسٹریٹ شاہد چودھری نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عید الاضحیٰ کے پیشِ نظر وادی میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں اور انتظامیہ نے عید کی تیاریوں کے سلسلے میں مختلف مساجد کے ائمہ حضرات سے تبادلۂ خیال کیا۔
بھارت کے ایک مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے نئی دہلی میں نماز عید ادا کرنے کے بعد اہلِ کشمیر کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ یہ عید ان کے لیے بہت خاص ہے۔ دفعہ 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی کشمیر سے کرپشن اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا۔
البتہ بھارت کی کمیونسٹ پارٹی (سی پی ایم) کے جنرل سیکریٹری سیتا رام یچوری نے کہا ہے کہ عید کے موقع پر کشمیر کے لوگوں کو ان کے گھروں میں قید کر دیا گیا ہے۔ ہمارے دل کشمیری عوام کے ساتھ ہیں لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ وہاں ہمارے ساتھی کس حال میں ہیں۔
دوسری جانب پیر کو چین کے دارالحکومت بیجنگ میں بھارت اور چین کے درمیان وزرائے خارجہ کی سطح پر مذاکرات ہوئے ہیں۔
مذاکرات کے آغاز پر چین نے کہا ہے کہ وہ دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد کی صورتِ حال، پاکستان اور بھارت میں کشیدگی اور بھارتی حکومت کے اقدام کے مضمرات پر باریکی سے نظر رکھے ہوئے ہے۔