مودی حکومت کی جانب سے پانچ اگست کو بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی اور لداخ کو ریاست سے الگ کرنے کے فیصلے کے بعد کشمیر میں بڑے پیمانے پر بے چینی پائی جاتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اطلاعات کے مطابق وہاں اب بھی بیشتر کاروباری اور تعلیمی ادارے بند ہیں۔ فون اور انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کا بڑے پیمانے پر گشت جاری ہے اور کرفیو جیسی سخت پابندیاں نافذ ہیں۔ دو مہینے گزر جانے کے بعد بھی وادی کے کئی حصوں میں لاک ڈاؤن جیسی صورت حال ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ حالات پوری طرح کنٹرول میں ہیں اور صورت حال بتدریج معمول پر آ رہی ہے۔
وائس آف امریکہ کی نمائندہ رتول جوشی نے حکومت کا موقف جاننے کے لیے حکمران جماعت بی جے پی کے ترجمان بیزے سونکر شاستری سے گفتگو کی۔
شاستری کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد سے ایک گولی تک نہیں چلی۔ جہاں تک مارکیٹ اور اسکول کھلنے کی بات ہے تو وہاں احتیاطی طور پر اقدامات کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بعد جس طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں اور جس طرح کا ماحول بنایا جا رہا ہے، اس سے یہ لگتا ہے کہ کچھ لوگوں نے ایک نظریہ قائم کر لیا ہے اور اب وہ اس کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ان چیزوں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ اب وہاں سب چیزیں نارمل ہو رہی ہیں، کچھ نارمل ہو چکی ہیں۔ اس لیے اس طرح کی باتیں نہیں کرنی چاہیئں۔
بی جے پی کے ترجمان نے ان خبروں کی تردید کی کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کچھ کیا بھی گیا ہے تو حفاظتی نقطہ نظر سے ہوا ہے۔ جیسے فاروق عبداللہ وغیرہ کی مثال ہے۔
جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اقدام کو سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا ہے۔ سونکر شاستری نے کہا کہ قانون کے نفاذ پر سوال نہیں اٹھانا چاہیے۔ کیا وہ لوگ چاہتے ہیں کہ ملک میں انارکی پیدا ہو؟ سپریم کورٹ اور دوسری عدالتیں اپنا کام کر رہی ہے۔ انہیں کام کرنے دیا جائے۔ ان کی جو بھی ہدایات ہیں، وہ حکومت اور عدالت کے درمیان ہے اور حکومت اسے مان رہی ہے اور ماننی بھی چاہیے۔
انہوں نے کشمیر میں حالات معمول پر آنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں صورت حال بالکل نارمل اور کنٹرول میں ہے۔ یقیناً کچھ ایسے لوگ ہیں جو خوش نہیں ہیں۔ لیکن یہ وہی لوگ ہیں جو کشمیر میں ہمیشہ بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ورنہ عام کشمیری خوش ہیں۔ وہاں ہمارے بھی بہت سے ساتھی ہیں۔ جب فون پر ان سے بات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بہت اچھا قدم اٹھایا گیا ہے۔ یہ قدم کشمیر کی بہتری کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
دوسری جانب آل انڈیا پروگریسو ویمینز ایسوسی ایشن کی جنرل سیکریٹری اور بھارتی جریدے لبریشن کی ایڈیٹر کویتا کرشنن نے حکومت پر کڑی تنقید کی ہے۔ وائس آف امریکہ کی صبا شاہ خان سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں 12 سال تک کی عمر کے بچوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5