پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی کے باوجود پاکستان کرتار پور راہداری کو جلد از جلد مکمل کرنے اور اِسے کھولنے کا خواہش مند ہے۔
پاکستانی حکام کا مؤقف ہے کہ پاکستان اِس راہداری کو سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک دیو جی کے 550 ویں جنم دن پر کھولنا چاہتا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ کے گاؤں 'کرتار پورہ' میں قائم گوردوارہ دنیا بھر کے سکھ مذہب کے ماننے والوں کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے۔
کرتار پورہ وہ مقام ہے جہاں سکھوں کے پہلے گورو نانک دیو جی نے اپنی زندگی کے آخری ایام بسر کیے تھے۔
اِسی مقام پر اِن کی ایک سمادھی (قبر) بھی ہے جو سکھ مذہب کے ماننے والوں اور مسلمانوں کے لیے مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔
کرتارپورہ دریائے راوی کے مغربی جانب واقع ہے، جبکہ دریا کے مشرقی جانب پڑوسی ملک بھارت ہے۔ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور سے کرتارپور کا فاصلہ 130 کلو میٹر کے لگ بھگ ہے۔
سکھوں کا یہ مقدس مقام ان دنوں پاکستان اور بھارت کے درمیان خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ اور بھارتی دفتر خارجہ کے حکام کی ہفتہ وار بریفنگ میں شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جس میں اِس کا ذکر نہ ہوتا ہو۔
SEE ALSO: 'زائرین کا تانتا بندھا تو انتظامات خود بخود ہو جائیں گے'پاکستان کی حکومت نے تین روزہ بین الاقوامی سکھ کنونشن کا انعقاد پہلی مرتبہ گورنر ہاؤس لاہور میں کیا، جس میں شرکت کے لیے دنیا بھر کے سکھ رہنماؤں کو شرکت کی دعوت دی گئی۔
کنونشن کے افتتاحی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے سکھ رہنماؤں کو بتایا کہ پاکستان نے کرتار پور راہداری پر اپنے حصّے کا 80 فی صد کام مکمل کر لیا ہے۔
انٹر نیشنل سکھ کنونشن میں شریک کینیڈا سے آئے گرپیت سنگھ ٹلو کہتے ہیں کہ کرتارپور راہداری کے کُھلنے سے سرحد کے دونوں طرف بسنے والے سکھوں کے درمیان رشتے مضبوط ہوں گے۔
گرپیت سنگھ ٹلو کا کہنا ہے کہ وہ سکھ کمیونٹی کو مدعو کرنے اور کرتارپور راہداری سے متعلق اُن کی رائے لینے پر پاکستانی حکومت کے مشکور ہیں۔
اُن کے بقول، پاکستان میں سکھوں کو بہت عزت ملتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت ہوتی رہنی چاہیے۔ راہداری کھلنا بہت اچھا اقدام ہے اور اس میں پہل کرنے پر پاکستان حکومت کے شکر گزار ہیں۔
کنونشن میں گرپیت سنگھ ٹلو کا کہنا تھا کہ مجھے معلوم ہے کہ اِس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی جاری ہے۔ لیکن، ہم اِس کے باوجود وہاں درشن کرنے جاتے ہیں۔ ہم تو امن کے خواہاں ہیں۔
پیر کو سکھ کنونشن کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان کا کہنا تھا کہ جب وہ وزیر اعظم بنے تو پہلے دن سے اُن کی کوشش تھی کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو اچھا کیا جائے۔
عمران خان نے کہا تھا کہ اُنہیں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے پاکستان آنے والے سکھ مذہب کے ماننے والوں کے لیے ویزا مسائل کا علم ہوا ہے، جسے آسان بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ اُن کی حکومت سکھ برادری کے لیے ملٹی پل ویزا کی پالیسی بنائے گی اور انہیں ہوائی اڈے پر سہولتیں دی جائیں گی۔
کنونشن کے اختتامی اجلاس سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ کرتارپورہ آپ کا مدینہ اور ننکانہ صاحب آپ کا مکہ ہے۔ تو ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی ہمیں مکہ اور مدینہ سے دور رکھے گا۔
بین الاقوامی امور کے ماہر، تجزیہ کار اور لمز یونیورسٹی میں درس و تدریس سے منسلک ڈاکٹر رسول بخش رئیس سمجھتے ہیں کہ کرتارپور راہداری کھولنے میں پاکستان کی دلچسپی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب پالیسی میں تسلسل ہے اور اُس میں ہم آہنگی بھی نظر آتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے رسول بخش رئیس نے کہا کہ جب سے عمران خان نے اقتدار سنبھالا ہے۔ پاکستان کی پالیسی ہے کہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنا ہے، جبکہ پڑوسی ملک کی کوشش یہی ہے کہ تعلقات بہتر نہ ہوں اور مسائل پیدا کیے جائیں۔
رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ کرتار پور راہداری کُھلنے سے دنیا بھر میں پاکستان کا تشخص بہتر ہو گا، کیونکہ پاکستان کے بارے میں ہندوستان کا جو بیانیہ تھا کہ پاکستان بار بار مداخلت کرتا ہے، دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے، عسکری پسند گروپوں کی سرپرستی کرتا ہے۔ اسے ہم نے توڑنا ہے اور اُس کو توڑنے کے لیے ضروی ہے کہ پالیسی میں تسلسل پیدا کیا جائے۔
رسول بخش رئیس کے بقول، دونوں ملکوں کے درمیان ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔ بھارت نے جس طرح پلوامہ واقعہ کا الزام پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی لیکن پاکستان نے اُسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا اور بھارتی پائلٹ کو واپس کیا۔ جس کا مقصد بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا تھا۔
تجزیہ کار نے مزید کہا کہ بھارت اِس وقت بٹا ہوا ہے۔ خاص طور پر جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آئی ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری ہو۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ کرتار پور راہداری کھولنے سے پاکستان دنیا بھر کو اقلیتوں کے حقوق اور رواداری کا پیغام دینا چاہتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ پالیسی یہی ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر کیا جائے۔ اِس پالیسی میں حکومت اور فوج دونوں اکٹھے ہیں۔
اُن کے بقول، بھارت بطور ملک پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ لیکن بھارتی فوج اور بی جے پی کی حکومت ایک پیج پر ہیں۔
ڈاکٹر رسول بخش سمجھتے ہیں کہ کسی بھی جگہ فوج سیاست کے تابع ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں جہاں تک بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کا مسئلہ ہے یا کشمیر کا معاملہ ہے۔ دونوں اکٹھے مل کر چلتے ہیں۔
کرتار پور راہداری مذاکرات
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتار پور راہداری پر اب تک حکام کے درمیان تین اجلاس جبکہ زیرو پوائنٹ پر تکنیکی ماہرین کے درمیان چار ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔
گزشتہ ماہ 30 اگست کو تکنیکی ماہرین کے مذکرات میں دونوں ملکوں کے درمیان مختلف امور پر اہم پیشرفت ہوئی تھی۔
اطلاعات کے مطابق کرتار پور راہداری پر پاکستان اپنے حصے کا 80 فی صد کام مکمل کر چکا ہے۔ جبکہ بھارت اِس سلسلے میں سست روّی کا شکار ہے اور اب تک 50 فی صد کام بھی مکمل نہیں کر پایا ہے۔
کرتار پور راہداری پر دونوں ملکوں کے درمیان پہلی بار 1988 میں رابطہ ہوا تھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان مسئلہ کشمیر اور حالیہ سرحدی کشیدگی کے باوجود کرتار پور راہداری پر اعلیٰ سطح مذاکرات رواں ماہ چار ستمبر کو بھارت کے سرحدی علاقے اٹاری پر ہوں گے۔
واضح رہے کشیدگی کے باوجود کرتار پور راہداری سے متعلق مذاکرات کی دعوت پاکستان کی جانب سے دی گئی ہے۔ جسے بھارت نے قبول کیا ہے۔