پاکستانی قانون سازوں اور مبصرین کی رائے میں یہ دونوں ہمسایہ ممالک کے لیے بہترین موقع ہے کہ اختلافات کا تدارک کرتے ہوئے خطے میں سلامتی کے لیے مل کر کوششیں کی جائیں۔
افغانستان سے 2014ء کے اختتام تک بین الاقوامی افواج کے انخلا اور آئندہ برس ہی افغان صدارتی انتخابات کے بعد اندرون ملک متوقع تبدیلیوں کے تناظر میں صدر حامد کرزئی کے دورہ اسلام آباد کو خطے میں قیام امن کی کوششوں کے لیے غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے۔
پاکستانی قانون سازوں اور مبصرین کی رائے میں یہ دونوں ہمسایہ ممالک کے لیے بہترین موقع ہے کہ اختلافات کا تدارک کرتے ہوئے سلامتی اور امن کے لیے مل کر کوششیں کریں۔
مذہبی و سیاسی جماعت جمیعت علماء اسلام (ف) کے سینیٹر غلام علی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ اسلام آباد کو مذہبی علماء اور دیگر اہم شخصیات کا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کرنا چاہیئے۔
’’افغان طالبان سے جب بات چیت ہوگی تو اس سے پہلے انہیں ایک روٹ فراہم کرنا ہوگا کہ وہ باہر آئیں۔ ایک طرف آپ مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ ان کے سروں کی قیمتیں لگاتے ہیں تو پھر تو مذاکرات نہیں ہو سکتے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات کے تناظر میں دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ نقصان دہ ہے جسے جلد ختم کیا جائے۔
سینیٹر غلام علی کا کہنا تھا کہ یہ وقت لڑائی جھگڑوں کا نہیں بلکہ تجارت اور اقتصادی تعاون کا ہے۔
صدر کرزئی کی آمد سے پہلے افغان حکام یہ کہہ چکے تھے کہ وہ پاکستانی رہنماؤں سے افغان مفاہتی عمل کی حمایت کا مطالبہ کرتے ہوئے چاہیں گے کہ قطر میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی طرح اسلام آباد طالبان کو افغان اعلٰی امن کونسل کے ساتھ بات چیت پر بھی امادہ کرے۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ترجمان سینیٹر پرویز رشید کہتے ہیں کہ دونوں حکومتوں کا مذاکرات کے ذریعے شدت پسندی کا حل تلاش کرنے کی خواہش کا اظہار خوش آئند ہے اور پاکستان قیام امن کے لیے زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
’’میں نہیں سمجھتا کہ کسی ملک کو اس میں کوئی برتری ہے۔ تاہم دونوں کی پوزیشن ایسی ہے کہ ان کے پاس کچھ پلس پوائنٹس ہیں جسے اگر مل کر استعمال کیا جائے تو قیام امن کا باہمی مقصد حاصل ہو سکتا ہے۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو صرف طالبان پر اثر و رسوخ استعمال کرنے کے تناظر میں دیکھنا خطے میں سلامتی اور امن کے لیے سود مند نا ہوگا۔
تجزیہ کار سابق ائیر مارشل شہزاد چوہدری کہتے ہیں کہ ’’افغانستان صرف طالبان پر مشتمل نہیں بلکہ وہاں نادرن الائنس وغیرہ بھی ہیں اور سب کو مل کر ہی چلنا ہے۔ وہ پاکستان نہیں کر سکتا وہ مسٹر کرزئی کو ہی کرنا ہوگا۔ پاکستان کے اثر و رثوق کو منفی انداز میں دیکھنے کی بجائے اگر مثبت انداز میں لیا جائے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔‘‘
موجودہ حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ افغانستان میں کسی مخصوص گروہ کی حمایت نہیں کرتی اور قیام امن کی ہر اس کوشش کی حمایت کی جائے گی جو کہ افغانستان کی طرف سے کی جائے۔
پاکستانی قانون سازوں اور مبصرین کی رائے میں یہ دونوں ہمسایہ ممالک کے لیے بہترین موقع ہے کہ اختلافات کا تدارک کرتے ہوئے سلامتی اور امن کے لیے مل کر کوششیں کریں۔
مذہبی و سیاسی جماعت جمیعت علماء اسلام (ف) کے سینیٹر غلام علی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ اسلام آباد کو مذہبی علماء اور دیگر اہم شخصیات کا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کرنا چاہیئے۔
’’افغان طالبان سے جب بات چیت ہوگی تو اس سے پہلے انہیں ایک روٹ فراہم کرنا ہوگا کہ وہ باہر آئیں۔ ایک طرف آپ مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ ان کے سروں کی قیمتیں لگاتے ہیں تو پھر تو مذاکرات نہیں ہو سکتے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات کے تناظر میں دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ نقصان دہ ہے جسے جلد ختم کیا جائے۔
سینیٹر غلام علی کا کہنا تھا کہ یہ وقت لڑائی جھگڑوں کا نہیں بلکہ تجارت اور اقتصادی تعاون کا ہے۔
صدر کرزئی کی آمد سے پہلے افغان حکام یہ کہہ چکے تھے کہ وہ پاکستانی رہنماؤں سے افغان مفاہتی عمل کی حمایت کا مطالبہ کرتے ہوئے چاہیں گے کہ قطر میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی طرح اسلام آباد طالبان کو افغان اعلٰی امن کونسل کے ساتھ بات چیت پر بھی امادہ کرے۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ترجمان سینیٹر پرویز رشید کہتے ہیں کہ دونوں حکومتوں کا مذاکرات کے ذریعے شدت پسندی کا حل تلاش کرنے کی خواہش کا اظہار خوش آئند ہے اور پاکستان قیام امن کے لیے زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
’’میں نہیں سمجھتا کہ کسی ملک کو اس میں کوئی برتری ہے۔ تاہم دونوں کی پوزیشن ایسی ہے کہ ان کے پاس کچھ پلس پوائنٹس ہیں جسے اگر مل کر استعمال کیا جائے تو قیام امن کا باہمی مقصد حاصل ہو سکتا ہے۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو صرف طالبان پر اثر و رسوخ استعمال کرنے کے تناظر میں دیکھنا خطے میں سلامتی اور امن کے لیے سود مند نا ہوگا۔
تجزیہ کار سابق ائیر مارشل شہزاد چوہدری کہتے ہیں کہ ’’افغانستان صرف طالبان پر مشتمل نہیں بلکہ وہاں نادرن الائنس وغیرہ بھی ہیں اور سب کو مل کر ہی چلنا ہے۔ وہ پاکستان نہیں کر سکتا وہ مسٹر کرزئی کو ہی کرنا ہوگا۔ پاکستان کے اثر و رثوق کو منفی انداز میں دیکھنے کی بجائے اگر مثبت انداز میں لیا جائے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔‘‘
موجودہ حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ افغانستان میں کسی مخصوص گروہ کی حمایت نہیں کرتی اور قیام امن کی ہر اس کوشش کی حمایت کی جائے گی جو کہ افغانستان کی طرف سے کی جائے۔