کراچی میں بدامنی کی لہر شروع ہوئے کئی ماہ ہونے کو ہیں ۔تمام کوششوں کے باوجود شہر میں تاحال امن قائم نہیں ہوسکا ہے ۔
منگل کو بھی شہر کے مختلف علاقوں سے فائرنگ اور پرتشدد واقعات کی اطلاعات موصول ہوئیں ۔ ان واقعات کے نتیجے میں چار افراد لقمہ اجل بن گئے ۔ادھرسندھ ہائی کورٹ نے شہر میں بد امنی سے متعلق وفاق اور صوبائی حکومتوں سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نوٹس جاری کر دیا ہے ۔
دوسری جانب مقامی میڈیا میں اس قسم کی بھی اطلاعات ہیں کہ صوبہ سندھ کی وزارت داخلہ متحدہ قومی موومنٹ کو دیئے جانے پر سوچ بچار جاری ہے۔ اس حوالے سے وزیر داخلہ کے لئے ایم کیو ایم کے رہنما رضا ہارون اور سید سردار احمد کے ناموں پر غور ہورہا ہے۔
ماضی میں بھی وزارت داخلہ کا عہدہ ایم کیوایم کے پاس رہ چکا ہے ۔ اس وقت روف صدیقی اس عہدے پر فائز تھے جبکہ حالیہ مہینوں میں یہ قلمدان پہلے پی پی پی کے رہنما ذوالفقار مرزا اور بعد ازاں منظور وسان کے پاس تھا۔ ”منظور وسان کو کچھ’ غیر سیاسی وجوہات‘ کے سبب اس عہدے سے ہٹادیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ صوبائی وزیر داخلہ کے فرائض بھی اداکررہے ہیں۔
شہر میں پرتشدد واقعات کا تازہ واقعہ منگل کی رات تقریباًنو بجے قیوم آباد میں پیش آیا جہاں ایک مذہبی جماعت اہلسنت والجماعت کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات اورنگزیب فاروقی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں وہ تو محفوظ رہے تاہم ان کا ایک محافظ زخمی ہو گیا ۔
اس سے قبل ملیر کے علاقے میں کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی گاڑی پر فائرنگ کر کے اس کے ڈرائیورکو ہلاک اور ان کے لائن مین کو زخمی کر دیاگیا ۔ نارتھ ناظم آباد میں موٹر سائیکل سواروں نے کا ر پر فائرنگ کر کے ، کے ای ایس سی کے ہی ڈپٹی جنرل منیجر عمران علی جعفری کو قتل کر دیا ۔
ادھر جہانگیر روڈ پر اسپیئر پارٹس کی دکان پر فائرنگ کر کے دوکاندار اور پنکچر لگانے والے ایک شخص کو قتل کر دیا گیا ۔ لیاری اور سہراب گوٹھ میں فائرنگ سے چار افراد زخمی ہوئے ۔
ادھر سندھ ہائی کورٹ نے ٹارگٹ کلنگ اور یگر جرائم کے انسدادسے متعلق درخواست پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں، ڈی جی رینجرز سندھ اور پولیس حکام کو نوٹس جاری کر دیئے گئے۔ درخواست گزار اقبال کاظمی نے موقف اپنایا ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ایسی ہی ایک پٹیشن چار سال سے زیر سماعت ہے ، اس کا فوری فیصلہ کیا جائے۔
درخواست میں کراچی کے 54تھانوں کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیاہے کہ رواں برس کے دوران اب تک773 افراد کوقتل کیا جاچکا ہے لیکن قاتل اب تک پکڑے نہیں جاسکے۔