وسیم صدیقی
پاکستان کے سب سے بڑے شہرکراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی ملک کے دیگر شہروں کی بہ نسبت بڑا اورسنگین ہے۔ ہرروزتعلیمی اداروں اورکام کے لئے گھروں سے نکلنے والی خواتین کو خاص طور پرمشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اورشایدیہی وجہ تھی کہ اب سے چند سال قبل جب بین الاقوامی ٹیکسی سروس ’اوبر‘ اور ’کریم‘نے اپنی سروس کا آغاز کیا تو ٹرانسپورٹ کے بدترین نظام کے ہاتھوں ستائی خواتین نے سکھ کا سانس لیا۔
لیکن اب صورتحال بدلتی نظرآرہی ہے اورلگتا کچھ یوں ہے کہ کراچی کی خواتین کا محفوظ اور آرام دہ سفرکا خواب ایک بار پھر مشکلات کا شکار ہونے والا ہے۔
کراچی کے علاقے کورنگی میں پچھلے ہفتے پرائیوٹ ٹیکسی سروس کریم کا ایک ڈرائیور اپنی گاڑی میں مردہ پایا گیا جس کی تحقیقات جاری ہیں۔کریم کے ڈرائیورکے قتل کوابتدامیں ڈکیتی میں مزاحمت کا کیس سمجھا گیا لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ واقعہ ذاتی دشمنی کا نتیجہ لگتا ہے۔
کورنگی پولیس کے ایس ایچ اوخالد عباسی کے مطابق ڈرائیورسید عبداللہ گیلانی کو سرمیں گولی ماری گئی تھی۔ابتدائی تحقیقات میں قتل ذاتی دشمنی کا واقعہ لگتا ہے کیونکہ نامعلوم حملہ آور عبداللہ کا موبائل فون،نقدی اوردیگرچیزوں میں سے کچھ بھی نہیں لے کر گئے۔ مقتول پنجاب کے علاقے بہاولپور کا رہائشی تھا اور اس کا رشتے داروں سے زمین کا تنازع تھا۔
خالد عباسی نے یہ بھی بتایا کہ کسی نے ڈرائیور کو فون کر کے بلایا اور عبداللہ کے پہنچنے پر گولی مار دی۔ عبداللہ اس وقت کریم کی ایپ پر ’آف لائن‘ تھا۔
اسی نوعیت کے ایک واقعہ میں گزشتہ جون ڈیفنس کے علاقے میں نامعلوم افراد نے ڈکیتی میں مزاحمت پر’کریم‘ کے ہی ایک ڈرائیور کو گولی مار کر زخمی کردیا تھا۔
ان واقعات پر تشویش اپنی جگہ لیکن اب بھی ’کریم‘ اور’اوبر‘سفر کے لئے خواتین کی ترجیح ہیں ۔
امریکی اخبار’نیویارک ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق کریم کے دفترمیں جائیں تو عام طور پرانسٹرکٹر ڈرائیورز کو جنہیں ’کیپٹن‘ کہا جاتا ہے تربیتی سیشن میں یہ ہدایات دیتے نظرآتے ہیں کہ خواتین کو بار بار شیشے میں نہ دیکھیں،ان کے لباس پر تبصرہ نہ کریں اور نہ ہی ان سے یہ پوچھیں کہ وہ شادی شدہ ہیں یا نہیں ۔ان باتوں سے خواتین پریشان ہوتی ہیں اور اس قسم کی باتیں برداشت نہیں کی جائیں گی۔
پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کو ہراساں کرنے کے 85 فیصد کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے کریم اور دیگر اپلیکیشن بیسڈ کمپنیاں محفوظ سفرکی سہولت فراہم توکررہی ہیں لیکن بہت سی خواتین کے لئے یہ مہنگا خرچا ہے جسے وہ ہرروز افورڈ نہیں کرسکتیں۔
بس کا کرایہ عام طورپردس سے بیس روپے ہوتا ہے جبکہ کریم یااوبرکی اپیلیکیشنز کے ذریعے طلب کی گئی ٹیکسی کا کرایہ اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جو فاصلے اور ڈیمانڈ پرمنحصر ہوتا ہے۔
متمول گھرانے کی خواتین سفرکے لئے یا تو ڈرائیورز کی خدمات حاصل کرتی ہیں یا پھر خود گاڑی ڈرائیور کرتی ہیں۔متوسط اور لوئر کلاس کی خواتین یا تو کمپنی یا اسکول کی طرف سے تمام خواتین کو فراہم کی گئی ٹرانسپورٹ یا پھرمنی بسوں اور بسوں سے سفرکرتی ہیں۔
کریم کمپنی کا کہنا ہے کہ شروع میں ہمارے ذہن میں صرف خواتین کے حوالے کوئی پلان نہیں تھا لیکن آج کریم کی 70 فیصد کسٹمرز خواتین ہیں۔
'کریم ‘نے سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات میں کامیابی کے بعد پاکستان میں کام کی شروعات ایک سال پہلے شروع کی تھی۔
پاکستان میں ’کریم‘ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر جنید اقبال کا کہنا ہے کہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ڈرائیورز کی اچھی طرح جانچ پڑتال ہماری ترجیح ہوتی ہے۔‘
اوبر اور کریم کے علاوہ ایک اور ٹیکسی سروس ’پیکسی‘ ہے جس کی ڈرائیور بھی خواتین ہیں لیکن چھوٹا نیٹ ورک ہونے کی وجہ سے ایک سال سے زائد چلنے کے باوجود ’پیکسی‘ کو خواتین میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ہے۔
اسی طرح کی ایک اور ایپ بیسد سروس ’بائیکیا‘ بھی ہے لیکن یہ موٹر سائیکل کے ذریعے لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا ذریعہ ہے لیکن اسے بھی کوئی خاص عوامی پذیرائی حاصل نہیں۔