کراچی پچھلے کئی سال سے بدامنی، فائرنگ، ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ ورانہ تشددکی لپیٹ میں ہے۔ اب حالات اس نہج پر ہیں کہ لاشیں بھی ’کلیم‘ نہیں کی جاتیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لاوارث لاشیں وہ سب کچھ کہہ جاتی ہیں جنہیں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کراچی —
کراچی میں لسبیلہ کا پُل بدھ کی صبح ایک عجیب منظر پیش کر رہا تھا۔ حیدری سے گرومند جاتے ہوئے دائیں جانب پل کے نیچے دیکھنے والوں کا ایک جم ِغفیر موجود تھا۔لوگ موٹر سائیکلز، سوزوکی اور رکشوں سے اتر کر حیرت ناک نظروں سے نیچے دیکھنے لگتے تھے۔ یہاں تک کہ رش کے سبب ٹریفک کی روانی متاثر ہونے لگی تھی اور گاڑیاں پھنس پھنس کر تقریباً رینگنے سی لگی تھیں۔
کسی خبر کو پانے کے ابدی تجسس نے میرے بھی قدم روک لئے، میں نے گاڑی ایک جانب لگائی اور اتر کر نیچے دیکھنے لگا۔
دراصل پل کے نیچے سے ایک قدیم برساتی نالہ گزرتا ہے جوشہر کے کئی علاقوں سے ہوتا ہوا لسبیلہ تک آتا اور آگے نکل جاتا ہے۔ یہ شہر بھر کی غلاظت، تعفن، کیڑے مکوڑوں اور مچھروں کی آماجگاہ ہے۔
رات کے اندھیرے میں کوئی یہاں لاش پھینک کر چلا گیا تھا جسے وہاں سے گزرتے لوگوں نے دیکھا اور سکتے میں آگئے کیوں کہ لاش پر تشدد کے ایسے نشانات تھے جنہیں بیان کرنا بھی مشکل ہے۔
عرصے سے جاری کراچی میں امن و امان کی مخدوش صورتحال میں کسی انسانی لاش کو ’بے گور وکفن‘ دیکھنے کا یہ میرا پہلا ’تجربہ‘ نہیں تھا اور نہ ہی ایسا تھا کہ لاش دیکھ کرمیری روح تک نہ کانپ گئی ہو بلکہ یہ وہ کیفیت تھی جس نے مجھے گنگ کردیا تھا۔ میں دیر تک لاش کے بارے میں یہی سوچتا رہا کہ جانے کون ہوگا؟ کس کالخت جگر ہوگا؟ ان حالات کو کیسے پہنچا؟ معلوم نہیں گھر والے کس حال میں ہوں، انہیں اس کے بارے میں پتہ بھی ہوگا کہ نہیں؟ ان پر کیا گزرے گی؟ وہ اس صورتحال کا سامنا کیوں کر کرسکیں گے؟
یہی سب سوچتے سوچتے میں دفتر چلا آیا۔۔ یہاں آکر پتہ چلا کہ صبح سے اب تک لاشیں ملنے اور ٹارگٹ کلنک کے کئی واقعات رپورٹ کیے جا چکے ہیں۔ حیران کن بات یہ تھی کہ ہر واقعے میں اور ہر لاش سے اسی طرح تشدد اور ویسی ہی بے رحمانہ موت کی حقیقیں جڑی ہیں۔ گو کہ واقعے کو کئی گھنٹے گزر چکے تھے، پولیس، ریسکیو ٹیموں کی مدد سے لاشوں کو سرد خانوں میں بھی منتقل کرچکی تھی لیکن آخری وقت تک کسی کی بھی شناخت نہیں ہوئی تھی۔
شناخت کی تلاش
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ایک انسانی لاش کئی حقیقتوں کی زبان ہوتی ہے لیکن لوگ صرف ’شناخت‘ ہی تلاش کرتے رہ جاتے ہیں۔ شہر کے واقعات گواہ ہیں کہ اکثر لاوارث قرار دی جانے والی لاشوں کے بھی کئی کئی وارث ہوتے ہیں لیکن وہ انجانے خوف کی وجہ سے اکثر اپنی شناخت بھی چھپا لیتے ہیں۔ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ وہ پولیس کے دائرہ تفتیش میں آجائیں گے، تھانوں کے چکر لگانا پڑیں گے، کورٹ کچہری اور عدالتوں کی طویل راہداریوں میں پیشیاں بھگتنا ہوں گی اور پیسہ اور وقت بھی الگ برباد ہوگا۔ ان سب سے بہتر ہے خاموشی اختیار کرلی جائے، جانے والا تو چلا ہی گیا۔ اب ”اللہ مرنے والے کے حق میں اچھا کرے۔۔۔“
اگر ایسا نہ ہوتا تو مختلف فلاحی تنظیموں کے زیر ِانتظام وہ قبرستان اس حد تک آباد نہ ہوتے کہ ان میں بے شمار قبروں کے کتبے محض اس لئے مخصوص نشانیوں کے ساتھ نصب ہیں کہ یہ ’لاوارث مردوں‘ کی قبریں ہیں۔۔۔ ان کا ولی وارث کوئی نہیں تھا۔
لاشیں بھی ’بولتی‘ ہیں
میرا ذاتی نظریہ یہ ہے کہ’ لاشیں‘ بھی بولتی ہیں، بس ان کی زبان سمجھنا شرط ہے۔ ہر لاش کم ازکم اتنا ضرور بولتی ہے کہ مرنے والے کے بودوباش سے اس کی کچھ شناخت مل سکے۔ وہ کسی حد تک مرنے والے کی مادری زبان کا پتہ بھی دیتی ہے اور کچھ نشانیاں تو ایسی بھی ضرور ہوتی ہیں جو فرقوں کا بھی پتہ دیتی ہیں۔ اس جدید ترین دور میں جب انسانی جین کا پتہ ڈی این اے سے لگانا ذرامشکل نہیں رہا تو مردوں کے لاورث ہونے کا یقین کیوں کرکیا جاسکتا ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود ہم شاید وہ حقیقتیں کبھی سمجھنا ہی نہیں چاہتے جو چیخ چیخ کر سب کچھ بیان کررہی ہوتی ہیں۔ شہر بھر سے ہر روز ملنے والی لاوارث لاشوں کا سبب کبھی ہمارا فرقہ بنتا ہے، کبھی نسل، کبھی علاقہ، کبھی زبان تو کبھی سیاسی نظریات، پیسے کی تماں، حرص، ذاتی یا دیرینہ دشمنی، رنجش ، دہشت گردی یا ناگہانی آفت۔
سب سے بڑی ’مجبوری‘ یہ ہے کہ ہمیں ان سب حقیقتوں کا ادراک تو ہے لیکن حل کوئی نہیں اور یہ حل اس وقت تک ممکن بھی نہیں ہوسکے گا جب تک یہ آگ ہمارے گھر تک نہیں پہنچتی۔
کسی خبر کو پانے کے ابدی تجسس نے میرے بھی قدم روک لئے، میں نے گاڑی ایک جانب لگائی اور اتر کر نیچے دیکھنے لگا۔
دراصل پل کے نیچے سے ایک قدیم برساتی نالہ گزرتا ہے جوشہر کے کئی علاقوں سے ہوتا ہوا لسبیلہ تک آتا اور آگے نکل جاتا ہے۔ یہ شہر بھر کی غلاظت، تعفن، کیڑے مکوڑوں اور مچھروں کی آماجگاہ ہے۔
رات کے اندھیرے میں کوئی یہاں لاش پھینک کر چلا گیا تھا جسے وہاں سے گزرتے لوگوں نے دیکھا اور سکتے میں آگئے کیوں کہ لاش پر تشدد کے ایسے نشانات تھے جنہیں بیان کرنا بھی مشکل ہے۔
عرصے سے جاری کراچی میں امن و امان کی مخدوش صورتحال میں کسی انسانی لاش کو ’بے گور وکفن‘ دیکھنے کا یہ میرا پہلا ’تجربہ‘ نہیں تھا اور نہ ہی ایسا تھا کہ لاش دیکھ کرمیری روح تک نہ کانپ گئی ہو بلکہ یہ وہ کیفیت تھی جس نے مجھے گنگ کردیا تھا۔ میں دیر تک لاش کے بارے میں یہی سوچتا رہا کہ جانے کون ہوگا؟ کس کالخت جگر ہوگا؟ ان حالات کو کیسے پہنچا؟ معلوم نہیں گھر والے کس حال میں ہوں، انہیں اس کے بارے میں پتہ بھی ہوگا کہ نہیں؟ ان پر کیا گزرے گی؟ وہ اس صورتحال کا سامنا کیوں کر کرسکیں گے؟
یہی سب سوچتے سوچتے میں دفتر چلا آیا۔۔ یہاں آکر پتہ چلا کہ صبح سے اب تک لاشیں ملنے اور ٹارگٹ کلنک کے کئی واقعات رپورٹ کیے جا چکے ہیں۔ حیران کن بات یہ تھی کہ ہر واقعے میں اور ہر لاش سے اسی طرح تشدد اور ویسی ہی بے رحمانہ موت کی حقیقیں جڑی ہیں۔ گو کہ واقعے کو کئی گھنٹے گزر چکے تھے، پولیس، ریسکیو ٹیموں کی مدد سے لاشوں کو سرد خانوں میں بھی منتقل کرچکی تھی لیکن آخری وقت تک کسی کی بھی شناخت نہیں ہوئی تھی۔
شناخت کی تلاش
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ایک انسانی لاش کئی حقیقتوں کی زبان ہوتی ہے لیکن لوگ صرف ’شناخت‘ ہی تلاش کرتے رہ جاتے ہیں۔ شہر کے واقعات گواہ ہیں کہ اکثر لاوارث قرار دی جانے والی لاشوں کے بھی کئی کئی وارث ہوتے ہیں لیکن وہ انجانے خوف کی وجہ سے اکثر اپنی شناخت بھی چھپا لیتے ہیں۔ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ وہ پولیس کے دائرہ تفتیش میں آجائیں گے، تھانوں کے چکر لگانا پڑیں گے، کورٹ کچہری اور عدالتوں کی طویل راہداریوں میں پیشیاں بھگتنا ہوں گی اور پیسہ اور وقت بھی الگ برباد ہوگا۔ ان سب سے بہتر ہے خاموشی اختیار کرلی جائے، جانے والا تو چلا ہی گیا۔ اب ”اللہ مرنے والے کے حق میں اچھا کرے۔۔۔“
اگر ایسا نہ ہوتا تو مختلف فلاحی تنظیموں کے زیر ِانتظام وہ قبرستان اس حد تک آباد نہ ہوتے کہ ان میں بے شمار قبروں کے کتبے محض اس لئے مخصوص نشانیوں کے ساتھ نصب ہیں کہ یہ ’لاوارث مردوں‘ کی قبریں ہیں۔۔۔ ان کا ولی وارث کوئی نہیں تھا۔
لاشیں بھی ’بولتی‘ ہیں
میرا ذاتی نظریہ یہ ہے کہ’ لاشیں‘ بھی بولتی ہیں، بس ان کی زبان سمجھنا شرط ہے۔ ہر لاش کم ازکم اتنا ضرور بولتی ہے کہ مرنے والے کے بودوباش سے اس کی کچھ شناخت مل سکے۔ وہ کسی حد تک مرنے والے کی مادری زبان کا پتہ بھی دیتی ہے اور کچھ نشانیاں تو ایسی بھی ضرور ہوتی ہیں جو فرقوں کا بھی پتہ دیتی ہیں۔ اس جدید ترین دور میں جب انسانی جین کا پتہ ڈی این اے سے لگانا ذرامشکل نہیں رہا تو مردوں کے لاورث ہونے کا یقین کیوں کرکیا جاسکتا ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود ہم شاید وہ حقیقتیں کبھی سمجھنا ہی نہیں چاہتے جو چیخ چیخ کر سب کچھ بیان کررہی ہوتی ہیں۔ شہر بھر سے ہر روز ملنے والی لاوارث لاشوں کا سبب کبھی ہمارا فرقہ بنتا ہے، کبھی نسل، کبھی علاقہ، کبھی زبان تو کبھی سیاسی نظریات، پیسے کی تماں، حرص، ذاتی یا دیرینہ دشمنی، رنجش ، دہشت گردی یا ناگہانی آفت۔
سب سے بڑی ’مجبوری‘ یہ ہے کہ ہمیں ان سب حقیقتوں کا ادراک تو ہے لیکن حل کوئی نہیں اور یہ حل اس وقت تک ممکن بھی نہیں ہوسکے گا جب تک یہ آگ ہمارے گھر تک نہیں پہنچتی۔