نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیو ز اور انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبون کی مختلف رپورٹس کے مطابق تحریک طالبان کراچی میں عرصے سے جاری بدامنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹارگٹ کلنگ کی آڑ میں اپنے مخالفین کو بھی نشانہ بنارہی ہے
کراچی کے دیرینہ مسئلے ’ٹارگٹ کلنگ‘ میں تحریک طالبان پاکستان ملوث ہے ۔ یہ بات پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی مختلف رپورٹس میں کہی گئی ہے ۔
نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیو ز اور انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبون کی مختلف رپورٹس کے مطابق تحریک طالبان کراچی میں عرصے سے جاری بدامنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹارگٹ کلنگ کی آڑ میں اپنے مخالفین کو بھی نشانہ بنارہی ہے۔ اس کے مخالفین میں سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سرفہرست ہیں۔
تنظیم کا ان افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے وادی سوات میں سنہ 2009 میں ہونے والے فوجی آپریشن کی ناصرف کھلے دل سے حمایت کی تھی بلکہ فوج کو طالبان کے ٹھکانوں کا پتہ بتانے میں بھی یہ لوگ پیش پیش تھے۔
تاہم اے این پی کے جنرل سیکریٹری بشیر جان کا کہنا ہے کہ پشتونوں کوصرف طالبان کی جانب سے نشانہ نہیں بنایاجارہا بلکہ اس میں دوسرے عناصر بھی شریک ہیں۔ دوسری جانب اے این پی رہنماوٴں کا کہنا ہے کہ اگر سوات میں طالبان کے خلاف آپریشن کیا جاسکتا ہے تو کراچی میں کیوں نہیں۔
سنہ 2009 میں سوات کی تحصیل کبل طالبان کا مضبوط گڑھ تصور ہوتی تھی ۔ یہیں ایک مقامی رہنما مولوی فضل اللہ نے اپنا عسکری گروپ تشکیل دے رکھا تھا جو پاکستانی سیکورٹی فورسز کے خلاف سرگرم عمل تھا۔ لہٰذا، مولوی فضل اللہ کے خلاف عسکری آپریشن کیا گیا ۔اس آپریشن کو مقامی پشتون رہنماوٴں کی زبردست حمایت حاصل تھی ۔
مقامی میڈیا کے مطابق ان پشتون رہنماوٴں میں سے بیشتر عوامی نیشنل پارٹی یعنی اے این پی سے تعلق رکھتے تھے چنانچے جیسے ہی آپریشن ختم ہوا یہ افراد طالبان کے سخت رد عمل سے بچنے کے لئے کراچی منتقل ہوگئے ۔ تاہم پچھلے کچھ مہینوں میں رونما ہونے والے واقعات اس جانب نشاندہی کررہے ہیں کہ سوات اور قبائلی علاقوں سے کراچی آکر آباد ہوجانے والے عسکری آپریشن کے حامی پشتون رہنماوٴں کے لئے اب کراچی بھی محفوظ علاقہ نہیں رہا ۔تحریک طالبان پاکستان نے ناصرف ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں کو ہدف بنانا شروع کردیا ہے بلکہ اپنے دیگر مخالفین سے بھی تنظیم اپنا ’حساب چکتا‘ کررہی ہے۔
اے این پی سندھ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے رکن امیر سردار کو کراچی میں نشانہ بنایا گیا ۔ امیر سردار کا تعلق مالاکنڈ سے تھا۔ 55سالہ سردار پچھلے 30سالوں سے اے این پی سے وابستہ تھے ۔ انہیں پچھلے ہفتے 13اگست کو سائٹ کے علاقے میں اے این پی کے دیگر دو سرگرم کارکنوں کے ساتھ فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا۔
تحریک طالبان پاکستان کے مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے ایک دھڑے نے اس قتل کی ذمے داری قبول کی تھی۔ دھڑے کا الزام تھا کہ امیر سردارپولیس کا مخبرتھا۔
سوات سے خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی کے رکن شیر شاہ خان کا انگریزی روزنامے ”ایکسپریس ٹریبون“ کو دیئے گئے انٹرویو میں کہنا ہے کہ وادی سوات سے تعلق رکھنے والے 65افراد کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں ۔ ان کے پیچھے تحریک طالبان پاکستان کا ہاتھ ہے۔
شیر شاہ کے مطابق ان افراد نے سوات آپریشن میں مولوی فضل اللہ کی ملیشیا کے خلاف پاکستانی فوج اور پیرا ملٹری فورسز کی مدد کی تھی۔ تاہم ، آپریشن کے بعد یہ لوگ کراچی منتقل ہوگئے تھے۔تقریباً ایک سال تو یہ افراد زیرزمین رہے اور انہوں نے اپنی سرگرمیاں ترک کئے رکھیں۔ تاہم، اب انہوں نے اپنی کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے جس میں سرفہرست ان لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو سوات میں آپریشن ختم ہونے اور طالبان کے پسپا ہونے کے فوری بعد کراچی منتقل ہوگئے تھے۔
اے این پی رہنماوٴں اور طالبان مخالف دیگرافراد کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے جن لوگوں کوہدف بناکر قتل کیا گیا ان میں سے زیادہ تر کا تعلق تحصیل کبل سے تھا ۔ یہ تعداد 36بتائی جارہی ہے ۔۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے ٹارگٹ کئے جانے والے افراد سوات کی امن کمیٹی میں بھی شامل تھے اور انہوں نے سیکورٹی فورسز کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ سیف اللہ چیئرمین امن جرگہ سوات کے مطابق عسکریت پسندوں نے سوات کے بااثر افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز مئی 2010ء میں کیا تھا اور اب تک یہ کم از کم 60افراد کو نشانہ بناچکے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی سندھ ڈسٹرکٹ ویسٹ کے سابق صدر سعید احمد کو رواں سال پانچ جنوری کو سائٹ کے علاقے میں نشانہ بنایا گیا ۔ اس حملے کے نتیجے میں امین اللہ نامی ایک شخص پولیس کی جوابی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا تھا۔ امین اللہ ، سوات کے فضل اللہ گروپ کا رکن تھا اور فوجی آپریشن کے بعد سے کراچی میں روپوش تھا۔
اٹھارہ جون کو شیرعلی خان کو بھی سائٹ کے علاقے میں ہی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ۔ شیر علی خان سوات عوامی اتحاد کا سربراہ تھا۔ سیف اللہ کے مطابق اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اب طالبان سوات میں ہونے والے اپنے ساتھیوں کی موت کا حساب برابر کررہے ہیں۔
اے این پی کے عہدیدار بشیر جان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نےقانون نافذ کرنے والے اداروں سے اپنے 30سے 40رہنماوٴں کو مکمل سیکورٹی فراہم کئے جانے کا مطالبہ کیا ہے تاہم ابھی اس مطالبے پر عمل درآمد ہونا باقی ہے۔
دریں اثناء ایس ایس پی، سی آئی ڈی چوہدری محمد اسلم کا کہنا ہے کہ انہوں نے سوات سے تعلق رکھنے والے متعدد عسکریت پسندوں کو کراچی سے حراست میں لیا ہے ۔ یہ افراد متعدد وارداتوں میں سوات پولیس کو مطلوب تھے۔ چوہدری اسلم نے تسلیم کیا کہ سوات سے آنے والے عسکریت پسند کراچی کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں سوات سے زیادہ قبائلی علاقوں سے آنے والے عسکریت پسندسرگرم ہیں۔
ایس ایس پی ویسٹ زون امیر فاروقی شاکی ہیں کہ ٹارگٹ کلنگ کے بیشتر واقعات پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں اور کراچی آنے والے عسکریت پسند مخصوص ہدایات اور منصوبوں پر عمل پییرا ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی میں ایک نیا رجحان بھی بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ عسکریت پسند وں نے اپنی دہشت بڑھانے کے لئے پولیس اہلکاروں کو مارنا شروع کردیا ہے جبکہ یہ افراد آپس میں بھی ایک دوسرے کو نشانہ بنارہے ہیں کیوں کہ یہ مختلف گروپوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ کراچی کی انتظامیہ کو شہر میں امن و امان کی صورتحال پرقابو پانے کے مزید وقت درکار ہوگا۔چودہ اگست کومزار قائدپر میڈیا سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے بعد اپنی سرگرمیوں کا رخ صوبہ سندھ اور دوسرے صوبوں کی جانب کردیا ہے۔
نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیو ز اور انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبون کی مختلف رپورٹس کے مطابق تحریک طالبان کراچی میں عرصے سے جاری بدامنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹارگٹ کلنگ کی آڑ میں اپنے مخالفین کو بھی نشانہ بنارہی ہے۔ اس کے مخالفین میں سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سرفہرست ہیں۔
تنظیم کا ان افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے وادی سوات میں سنہ 2009 میں ہونے والے فوجی آپریشن کی ناصرف کھلے دل سے حمایت کی تھی بلکہ فوج کو طالبان کے ٹھکانوں کا پتہ بتانے میں بھی یہ لوگ پیش پیش تھے۔
تاہم اے این پی کے جنرل سیکریٹری بشیر جان کا کہنا ہے کہ پشتونوں کوصرف طالبان کی جانب سے نشانہ نہیں بنایاجارہا بلکہ اس میں دوسرے عناصر بھی شریک ہیں۔ دوسری جانب اے این پی رہنماوٴں کا کہنا ہے کہ اگر سوات میں طالبان کے خلاف آپریشن کیا جاسکتا ہے تو کراچی میں کیوں نہیں۔
سنہ 2009 میں سوات کی تحصیل کبل طالبان کا مضبوط گڑھ تصور ہوتی تھی ۔ یہیں ایک مقامی رہنما مولوی فضل اللہ نے اپنا عسکری گروپ تشکیل دے رکھا تھا جو پاکستانی سیکورٹی فورسز کے خلاف سرگرم عمل تھا۔ لہٰذا، مولوی فضل اللہ کے خلاف عسکری آپریشن کیا گیا ۔اس آپریشن کو مقامی پشتون رہنماوٴں کی زبردست حمایت حاصل تھی ۔
مقامی میڈیا کے مطابق ان پشتون رہنماوٴں میں سے بیشتر عوامی نیشنل پارٹی یعنی اے این پی سے تعلق رکھتے تھے چنانچے جیسے ہی آپریشن ختم ہوا یہ افراد طالبان کے سخت رد عمل سے بچنے کے لئے کراچی منتقل ہوگئے ۔ تاہم پچھلے کچھ مہینوں میں رونما ہونے والے واقعات اس جانب نشاندہی کررہے ہیں کہ سوات اور قبائلی علاقوں سے کراچی آکر آباد ہوجانے والے عسکری آپریشن کے حامی پشتون رہنماوٴں کے لئے اب کراچی بھی محفوظ علاقہ نہیں رہا ۔تحریک طالبان پاکستان نے ناصرف ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں کو ہدف بنانا شروع کردیا ہے بلکہ اپنے دیگر مخالفین سے بھی تنظیم اپنا ’حساب چکتا‘ کررہی ہے۔
اے این پی سندھ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے رکن امیر سردار کو کراچی میں نشانہ بنایا گیا ۔ امیر سردار کا تعلق مالاکنڈ سے تھا۔ 55سالہ سردار پچھلے 30سالوں سے اے این پی سے وابستہ تھے ۔ انہیں پچھلے ہفتے 13اگست کو سائٹ کے علاقے میں اے این پی کے دیگر دو سرگرم کارکنوں کے ساتھ فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا۔
تحریک طالبان پاکستان کے مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے ایک دھڑے نے اس قتل کی ذمے داری قبول کی تھی۔ دھڑے کا الزام تھا کہ امیر سردارپولیس کا مخبرتھا۔
سوات سے خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی کے رکن شیر شاہ خان کا انگریزی روزنامے ”ایکسپریس ٹریبون“ کو دیئے گئے انٹرویو میں کہنا ہے کہ وادی سوات سے تعلق رکھنے والے 65افراد کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں ۔ ان کے پیچھے تحریک طالبان پاکستان کا ہاتھ ہے۔
شیر شاہ کے مطابق ان افراد نے سوات آپریشن میں مولوی فضل اللہ کی ملیشیا کے خلاف پاکستانی فوج اور پیرا ملٹری فورسز کی مدد کی تھی۔ تاہم ، آپریشن کے بعد یہ لوگ کراچی منتقل ہوگئے تھے۔تقریباً ایک سال تو یہ افراد زیرزمین رہے اور انہوں نے اپنی سرگرمیاں ترک کئے رکھیں۔ تاہم، اب انہوں نے اپنی کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے جس میں سرفہرست ان لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو سوات میں آپریشن ختم ہونے اور طالبان کے پسپا ہونے کے فوری بعد کراچی منتقل ہوگئے تھے۔
اے این پی رہنماوٴں اور طالبان مخالف دیگرافراد کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے جن لوگوں کوہدف بناکر قتل کیا گیا ان میں سے زیادہ تر کا تعلق تحصیل کبل سے تھا ۔ یہ تعداد 36بتائی جارہی ہے ۔۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے ٹارگٹ کئے جانے والے افراد سوات کی امن کمیٹی میں بھی شامل تھے اور انہوں نے سیکورٹی فورسز کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ سیف اللہ چیئرمین امن جرگہ سوات کے مطابق عسکریت پسندوں نے سوات کے بااثر افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز مئی 2010ء میں کیا تھا اور اب تک یہ کم از کم 60افراد کو نشانہ بناچکے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی سندھ ڈسٹرکٹ ویسٹ کے سابق صدر سعید احمد کو رواں سال پانچ جنوری کو سائٹ کے علاقے میں نشانہ بنایا گیا ۔ اس حملے کے نتیجے میں امین اللہ نامی ایک شخص پولیس کی جوابی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا تھا۔ امین اللہ ، سوات کے فضل اللہ گروپ کا رکن تھا اور فوجی آپریشن کے بعد سے کراچی میں روپوش تھا۔
اٹھارہ جون کو شیرعلی خان کو بھی سائٹ کے علاقے میں ہی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ۔ شیر علی خان سوات عوامی اتحاد کا سربراہ تھا۔ سیف اللہ کے مطابق اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اب طالبان سوات میں ہونے والے اپنے ساتھیوں کی موت کا حساب برابر کررہے ہیں۔
اے این پی کے عہدیدار بشیر جان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نےقانون نافذ کرنے والے اداروں سے اپنے 30سے 40رہنماوٴں کو مکمل سیکورٹی فراہم کئے جانے کا مطالبہ کیا ہے تاہم ابھی اس مطالبے پر عمل درآمد ہونا باقی ہے۔
دریں اثناء ایس ایس پی، سی آئی ڈی چوہدری محمد اسلم کا کہنا ہے کہ انہوں نے سوات سے تعلق رکھنے والے متعدد عسکریت پسندوں کو کراچی سے حراست میں لیا ہے ۔ یہ افراد متعدد وارداتوں میں سوات پولیس کو مطلوب تھے۔ چوہدری اسلم نے تسلیم کیا کہ سوات سے آنے والے عسکریت پسند کراچی کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں سوات سے زیادہ قبائلی علاقوں سے آنے والے عسکریت پسندسرگرم ہیں۔
ایس ایس پی ویسٹ زون امیر فاروقی شاکی ہیں کہ ٹارگٹ کلنگ کے بیشتر واقعات پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں اور کراچی آنے والے عسکریت پسند مخصوص ہدایات اور منصوبوں پر عمل پییرا ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی میں ایک نیا رجحان بھی بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ عسکریت پسند وں نے اپنی دہشت بڑھانے کے لئے پولیس اہلکاروں کو مارنا شروع کردیا ہے جبکہ یہ افراد آپس میں بھی ایک دوسرے کو نشانہ بنارہے ہیں کیوں کہ یہ مختلف گروپوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ کراچی کی انتظامیہ کو شہر میں امن و امان کی صورتحال پرقابو پانے کے مزید وقت درکار ہوگا۔چودہ اگست کومزار قائدپر میڈیا سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے بعد اپنی سرگرمیوں کا رخ صوبہ سندھ اور دوسرے صوبوں کی جانب کردیا ہے۔