کراچی کے ایکسپو سینٹر میں جمعرات کو بین الاقوامی کتب میلے کا انعقاد کیا گیا۔
پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کی جانب سے لگائے جانےوالے سالانہ کراچی کتب میلے کا باقاعدہ افتتاح جمعرات کے روز قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما، خورشید شاہ نے کیا۔
سید خورشید شاہ نے کہا کہ ’کتب میلے کا انعقاد خوش آئند ہے۔ ایسے کتب میلے اندرون سندھ کے شہروں حیدر آباد، سکھر اور لاڑکانہ میں بھی ہونے چاہئیں۔ اس سے لوگوں کو فائدہ اور ان میں شعور اجاگر ہوگا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے تعلیم کو نظرانداز کیا، جس کی وجہ سے ہم یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ ہم پڑھی لکھی قوم ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’ہم نے تعلیم پر وہ توجہ نہیں دی جس کی وہ مستحق تھی۔ ہم62 فیصد شرح خواندگی کا دعویٰ کرتے ہیں، جسے دنیا تسلیم نہیں کرتی، کیوں کی صرف اخبار کی شہ سرخی پڑھنے سے کوئی پڑھا لکھا نہیں ہو جاتا'۔
کراچی کتب میلے میں پہلی بار ترکی کی کتابوں کا اسٹال بھی لگایا گیا ہے۔
افتتاحی تقریب میں شریک ترک قونصل جنرل مورات انارت کا کہنا تھا کہ ’ہم اس کتب میلے میں پہلی بار شرکت کر رہے ہیں۔ ہم نے ترکی زبان میں لکھی گئی42 کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ امید ہے کہ کراچی کے شہریوں کو یہ کتابیں پسند آئیں گی‘۔
Your browser doesn’t support HTML5
یہ گیارہواں کراچی بین الااقوامی کتب میلہ ہے جہاں ایک ہی چھت تلے 300 سے زائد کتابوں کے اسٹالز لگائے گئے ہیں۔ کراچی کے کتب میلے میں قومی پبلشرز سمیت 8 غیر ملکی پبلشرز کے اسٹال لگائے گئے ہیں جسمیں ترکی، ملائیشیا چین سمیت دیگر آٹھ غیر ملکی پبلشرز نے کتابوں کے اسٹال لگائے ہیں۔
میلے کے پہلے روز ایکسپو سینٹر آنےوالے ایک طالبعلم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ،’یہاں پر نصابی کتابوں سے ہٹ کر مختلف عنوانات کی کتابیں رکھی گئی ہیں۔ یہ دوسرا سال ہے میں اس کتب میلے میں شرکت کر رہا ہوں اچھا ہے اس طرح کالج سلیبس سے ہٹ کر بھی کتابیں پڑھنے کو مل جاتی ہیں‘۔
اردو زبان کی بچوں کی کتابوں کے ایک اسٹال کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’ہمارے اسٹال پر بچوں کیلئے سستی و مفید کتابیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ آجکل نئی نسل کے پاس ٹائم کم ہے۔ ہمارا مقصد ہے کہ اردو کے بارے میں معلومات ہوں۔ اس سے، ہم اردو کو بھی فروغ دے رہے ہیں‘۔
کراچی کے کتاب میلے میں شریک ہونےوالی ایک اور اسکول کی طالبہ منیزہ نے بتایا کہ ’انگریزی زبان کی کہانیوں والی کتابیں ان کی من پسند ہیں‘۔
وہ کہتی ہیں کہ انگریزی کو بہتر کرنے کیلئے بھی وہ انہی سے مستفید ہوتی ہیں۔ وہی خریدنے یہاں آئی ہیں۔ جبکہ، میلے میں کتابوں کی کم قیمت بھی ہے تو خریدنا آسان ہے‘۔
میڈیکل تھرڈ ایئر کی طالبہ بھی اپنے کورس سے ہٹ کر کتب میلے میں کتابیں دیکھنے میں مگن تھیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ ’میں میڈیکل کی اسٹوڈنٹ ہوں، جبکہ کورس سے ہٹ کر میری دلچسہی میں فکشن، ہارر اور اردو مصنفین کے تحریر کردہ ناول ہیں‘۔ ،
ان کے بقول، ایسی کتابیں ہم میڈیکل طالبعلموں کو پڑھائی کے ذہنی دباؤ کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
میلے میں آنے والے ایک شہری نے بتایا کہ ’کراچی میں امن ہوا ہے تو لوگ اب گھروں سے باہر آرہے ہیں۔ کتاب میلے کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی ایسے کام ہونےچاہئیں۔ کراچی میں امن کو فروغ دینے کیلئے ادب کی تقریبات کو فروغ دینا ایک صحتمند سرگرمی ہے‘۔
کراچی میں لگنےوالے گیارہویں عالمی کتب میلے میں فکشن، شاعری، تاریخ، سائنس، ٹیکنالوجی، کہانیاں، ناول سمیت اردو اور انگریزی کی درجنوں کتابیں رعایتی قیمتوں پر فروخت کیلئے رکھی گئی ہیں۔ پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کی جانب سے جمعرات سے شروع ہونےوالا یہ کتب میلہ اگلے چار روز تک جاری رہے گا۔