کراچی: بس حملہ، 17 خواتین بھی نشانہ بنیں

کراچی: صفورا گوٹھ پر بدھ کی صبح اسماعیلی برادری کی جس بس پر حملہ کیا گیا اُس میں خواتین کی ایک بڑی تعداد سوار تھی، جو نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنیں۔

اسپتال ذرائع کے مطابق، حملے میں 17 خواتین ہلاک ہوئیں، جن کی عمریں 20 سے 50 کے درمیان بتائی جاتی ہیں، جو کراچی کے علاقے صفورہ سے گزرنے والی بس میں سوار تھیں۔ دوسری جانب، زخمیوں میں بھی مردوں سمیت خواتین کی ایک خاصی تعداد شامل ہے۔

کئی خواتین زخمی ہیں، جنھیں اسپتال میں طبی امداد فراہم کی جارہی ہے۔

پاکستان میں دہشتگردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں جسمیں مردوں سمیت بڑی تعداد میں خواتین کو نشانہ بنایا گیا ہو۔

اس سے قبل، گزشتہ برس پشاور کے آرمی اسکول پر دہشتگردوں کے حملے میں اسکول کے درجنوں طالبعملوں سمیت، اسکول کی پرنسپل سمیت، متعدد خواتین اساتذہ کو بھی نشانہ بنایا جا گیا تھا، جبکہ دیگر دہشتگرد حملوں میں بھی کئی بار خواتین بی نشانہ بنتی آئی ہیں۔

پاکستان میں دہشتگردی کی اندوہناک کاروائیوں میں دہشتگردوں کی جانب سے خواتین اور بچوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کی کاروائیوں میں ملوث دشمن عناصر خواتین اور بچوں کو نشانہ بناکر قوم کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

کراچی کی معروف ماہر نفسیات، نوشین شہزاد اس حوالے سے گفتگو میں کہتی ہیں کہ ’خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا جانا ایک نفسیاتی دباؤ ڈالنے کے مترادف ہے، تاکہ ان کے غلط ارادے کامیاب ہوسکیں۔

نوشین کا کہنا ہے کہ ’ایسے فعل سے دہشتگرد یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ دو کروڑ کی آبادی والے اس شہر کراچی میں 17 خواتین سمیت 45 افراد کے قتل سے شہر کو دہشت زدہ کرنا چاہتے ہیں، جو ایک قابل مذمت واقع ہے۔ ایسے حالات میں ہمیں دشمن عناصر کو یہ بتانا ہے کہ ہم ڈرتے نہیں‘۔

خاتون سماجی کارکن، انیس ہارون کا کہنا ہے کہ ’کراچی میں دہشتگردوں کی جانب سے نشانہ بننے والوں میں کئی خواتین کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جو ایک افسوسناک پہلو ہے۔

بقول اُن کے، ’دہشتگرد نا بوڑھوں کو دیکھتے ہیں نا خواتین کو۔ اس قسم کے انسان کو جنگی درندے ہی کہا جا سکتا ہے‘۔

انیس ہارون کے مطابق، ’ہزاروں شہری دہشتگردی کی کاروائیوں میں جانیں دے چکے ہیں، چاہے وہ خواتین ہوں یا بچے، یا معذور ہوں، سول سوسائٹی ہونے کے ناطے ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں اور سوال بھی ان سے کرتے ہین کہ وہ کیوں ناکام ہیں؟‘

انیس ہارون کے مطابق، ’اسماعیلی کمیونٹی کا پاکستانی معیشت میں ایک حصہ ہے۔۔۔۔ دہشتگرد کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔۔۔ کہ، جسکو چاہے نشانہ بناسکتے ہیں‘۔

ایچ آر سی پی کی جانب سے کراچی بس حملے کی شدید مذمت

ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن زہرہ یوسف وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتی ہیں کہ 'حکومت کی جانب سے ہر دفعہ پیش آنےوالے دہشتگردی کے واقعات کے بعد ایک ہی بیان سامنے آتا ہے کہ دہشتگردوں کو گرفتار کیا جائےگا۔ مگر اصل حقیقت سامنے نہیں آتی، جو ایک افسوسناک امر ہے‘۔

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کراچی میں بس پر حملے میں اسماعیلی کمیونٹی کے ارکان کے وحشیانہ قتل کو انتہائی قابل مذمت قرادیا گیا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس واقعے کے بعد ریاست ایک بار پھر شہریوں کے جینے کے حق کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے‘۔