افغان حکومت نے واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان کی طرف سے کشمیر کے معاملے کو مبینہ طور پر افغانستان کے ساتھ جوڑنے کے بیان پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اسے غیر ضروری اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے سفیر نے گزشتہ ہفتے امریکہ کے نامور اخبار 'نیو یارک ٹائمز' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بھارت سے کشیدگی کی صورت میں پاکستان اپنے فوجی دستوں کو افغانستان سے متصل مغربی سرحد سے ہٹا کر مشرقی سرحد پر تعینات کر سکتا ہے۔
واشنگٹن میں افغانستان کے سفارتخانے کی جانب سے پاکستانی سفیر کے اس بیان پر ایک تفصیلی اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ہے۔
واشنگٹن میں تعینات افغان سفیر رویا رحمانی نے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے سفیر کے بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ افغانستان، پاکستان کے لیے کوئی خطرہ ہے۔ اس قسم کے بیانات درست نہیں ہیں۔
The Islamic Republic of Afghanistan strongly questions the assertion made by Pakistan%27s ambassador to the United States, Asad Majeed Khan, that the ongoing tensions in Kashmir could potentially affect Afghanistan’s peace process. pic.twitter.com/OASLSsZQ0x
— Afghan Embassy DC (@Embassy_of_AFG) August 18, 2019
افغان سفیر کے بقول کشمیر پاکستان اور بھارت کا دو طرفہ معاملہ ہے اور پاکستان کی طرف سے اس معاملے کو مبینہ طور پر افغانستان کے ساتھ جوڑنا افغان سرزمین پر تشدد کو طول دینے کی ایک ارادی کوشش ہے۔
افغان سفیر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی سفیر کا بیان افغان صدر اشرف غنی کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران وزیر اعظم عمران خان اور فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ہونے والے مثبت رابطوں کے برعکس ہے۔
افغانستان کے سفیر کے یبان کے ردعمل میں پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر اسد مجید پہلے بھی یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ کشمیر اور افغانستان دو الگ الگ معاملات ہیں اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کی کوشش نہیں کر رہے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے تو یقیناً بھارت کی عددی فوجی برتری کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اپنے دفاعی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے فوجی دستوں کو مشرقی سرحد پر منتقل کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی توجہ مکمل طور پر افغان امن عمل پر رہتی ہے تو پاکستان افغان مفاہمتی عمل میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کر سکتا ہے۔
تجزیہ کار ظفر جسپال کے مطابق پاکستان کی توجہ بھارت سے متصل مشرقی سرحد کی جانب مبذول ہونے سے پاکستان کی توجہ افغان امن عمل سے تقسیم ہو سکتی ہے جبکہ پاکستان کے لیے مؤثر مطلوبہ کردار ادا کرنے کی راہ میں کچھ فرق پڑ سکتا ہے۔
اُن کے بقول افغان امن عمل سے متعلق پاکستان کی کوششوں پر شک کرنا کسی طور پر درست نہیں ہوگا۔
افغان سفیر رویا رحمانی کا بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن مذاکرات کے لیے بات چیت کا آٹھواں اور فیصلہ کن مرحلہ رواں ماہ کے دوسرے ہفتے میں اختتام کو پہنچا ہے۔
اس بات کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ فریقین کے درمیان جلد امن سمجھوتہ طے پا سکتا ہے تاہم اب تک امریکہ اور نا ہی طالبان نمائندوں کی طرف سے اس بارے میں کوئی باضابطہ اعلان سامنے آیا ہے۔