ہفتے کے روز کابل کے ایک نجی اسپتال کے باہر ایک کار بم دھماکہ ہوا جس میں 12 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سےتین ٹھیکے دار تھے، جن کا تعلق افغانستان میں تعینات نیٹو کے دستوں سے تھا۔
دھماکے میں بیسیوں افراد زخمی ہوئے، جس میں دارلحکومت کا ایک رہائشی علاقہ لرز اٹھا، اور مزید ایک درجن سے زیادہ گاڑیاں یا تو مکمل طور پر تباہ ہوئیں یا پھر اُنھیں نقصان پہنچا۔
نیٹو نے بتایا ہے کہ اُس کے تین سولین کانٹریکٹر ہلاک ہوئے، جن میں ایک اُسی وقت چل بسا جب کہ دیگر دو اسپتال منتقل کیے جانے کیے دوران دم توڑ گئے۔ اُن کی قومیتوں کے بارے نہیں بتایا گیا۔
جائے واردات سے موصولہ اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ بم حملے کا ہدف کابل سے گزرنے والا غیر ملکی افواج کا قافلہ تھا، جسے عین اُس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ ایک قریبی نجی اسپتال، شنوزادہ کے پاس سے گزر رہا تھا۔
چند کلومیٹر دور واقع سخت پہرے والے، امریکی سفارت خانے سے ہنگامی صورت حال کے سائرن بجائے گئے، اور کچھ ہی لمحے بعد احتیاط برتنے سے متعلق انتباہ جاری ہوا۔
حملے کی فوری طور پر کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی، جو اس ماہ کابل میں ہونے والے مہلک حالیہ واقعات میں سے ایک تھا، جن میں اب تک کم از کم 50 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔
طالبان جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر حملے اُنہی کی کارستانی ہے۔ رواں سال کے زیادہ تر حصے کے دوران طالبان کی سرگرمیوں میں تیزی آتی جا رہی ہے، ایسے میں جب سنہ 2014 کے اواخر کے دوران امریکی اور نیٹو کی افواج نے اپنی لڑاکا کارروائیاں بند کر دی ہیں۔ لیکن، حالیہ ہفتوں کے دوران شدت پسندوں کی سرگرمیوں میں تیزی آتی گئی ہے جوں جوں ملک میں موسم بہار کے بعد گرمیاں شروع ہوئیں۔
حالانکہ امریکی اور نیٹو کی زیادہ تر افواج کا افغانستان سے انخلا ہوچکا ہے، 13000 پر مشتمل تھوڑی سی فوج ملک میں موجود ہے، جس کا کام تربیت کی فراہمی اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں مدد دینا ہے۔