افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دو مسافر ویگنوں میں بم دھماکوں سے کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور نو زخمی ہو گئے ہیں۔ جبکہ بین الاقوامی افواج کے انخلا کا عمل جاری ہے اور افغان سیکیورٹی فورسز کی بیرون ملک تریبت کے امکانات غیر واضح نظر آرہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی دو بم حملوں میں مسافر بسوں کو ہدف بنایا گیاتھا جس سے ان خطرات کی نشاندہی ہوتی ہے، جو عام شہریوں کو لاحق ہیں۔
کابل میں پولیس کے ترجمان فردوس فرامرز نے کہا ہے کہ جمعرات کو ہونے والا پہلا حملہ کابل کے جنوب مغرب میں ایک شاہراہ پر ہوا۔ دھماکے میں چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہو گئے۔ اس علاقے میں زیادہ تر اقلیتی شیعہ کمیونٹی آباد ہے۔
اس دھماکے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد، پولیس کے مطابق، دوسری مسافر بس کو چند کلو میٹر دور ہزارہ کمیونٹی کے علاقے کے نزدیک ہدف بنایا گیا۔
کسی نے فوری طور پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
عسکریت پسند گروپ داعش نے اس سے قبل بھی علاقے میں اسی نوعیت کے حملے کیے ہیں اور منگل کو بھی دو چھوٹی مسافر بسوں پر حملوں میں کم از کم دس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
افغانستان میں تشدد اور بدامنی میں ایسے وقت میں اضافہ ہو رہا ہے جب امریکہ اور نیٹو افغانستان کے اندر اپنے آخری فوجیوں کے انخلا کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
افغانستان میں اس وقت امریکہ کے تقریبا 2500 سے 3500 جب کہ اتحادی افواج کے 7000 کے قریب فوجی موجود ہیں۔
افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کی مستقبل میں تربیت کے امکانات غیر واضح
وائس آف امریکہ کی کارلا بیب نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ افغان سیکیورٹی فورسز کی تربیت کے لیے بین الاقوامی کوششوں کا مستقبل غیر واضح ہے جب کہ پنٹاگان کے عہدیدار شورش زدہ ملک سے آئندہ تقریباً تین ماہ کے اندر انخلا مکمل کرنے کے بعد دیگر ترجیحات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔
یو ایس سینٹرل کمانڈ کے مطابق، افغانستان میں جنوری 2015 میں ریزولیوٹ سپورٹ پروگرام شروع کیا گیا جس کا مقصد افغان سیکیورٹی فورسز کی مشاورت اور معاونت تھا۔ اس پروگرام کے تحت گزشتہ کئی برسوں میں افغان فورسز کو بجٹ بنانے، شفافیت قائم رکھنے اور جوابدہی سے لے کر فورس جنریٹ کرنے، فورس کو قائم رکھنے، انٹیلی جنس اور سٹریٹجک کمیونی کیشن تک کئی ہنر سکھانے میں مدد فراہم کی گئی۔
محکمہ دفاع کے ایک عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ حالیہ دنوں میں ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر تمام طرح کی تربیت میں شامل رہے ہیں۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل یینز سٹولٹنبرگ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد وہ افغانستان سے باہر افغان فورسز کی تربیت جاری رکھیں گے۔ اس بارے میں پینٹاگان کے پریس سیکرٹری جان کربی نے بدھ کے روز صحافیوں سے گفتگو میں کہا، ’’ اس وقت انخلا کے بعد افغان نیشنل سیکیورٹی، نیشنل ڈیفینس اور نیشنل سیکیورٹی فورسز کی مدد میں ہماری توجہ زیادہ تر مالی وسائل اور کسی سطح پر لاجسٹک سپورٹ جیسا کہ ائیرکرافٹس کی مرمت وغیرہ پر ہے‘‘۔
لیکن جب جان کربی سے افغان فوجوں کی تربیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے، کیونکہ ان کے پاس پالیسی کے تحت کیے گئے فیصلے موجود نہیں ہیں۔
گزشتہ ماہ جنرل مارک ملی نے، جو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ہیں، اسی انداز میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ فوج کی خواہش ہے کہ افغانستان کے اندر امریکی سفارت خانہ کھلا رکھا جائے اور افغان حکومت، افغان سیکیورٹی فورسز کو مالی امداد جاری رکھی جائے۔
’’ ہم ان (افغان فورسز) کی تربیت کے کام پر بھی نظر رکھیں گے، غالباً دیگر مقامات پر۔۔ مگر، نہیں، ہم نے اس کا ابھی سو فیصد تعین نہیں کیا ہے‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ کے سابق وزیر دفاع لیون پینیٹا نے گزشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جس سے افغانستان کے اندر کسی اور جنگ میں شامل ہونے سے بچاجا سکے، جیسے سال 2010 میں عراق میں کرنا پڑا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان اقدامات میں سے ایک افغان فورسز کو تربیت کی پیشکش کرنا ہے۔
کارلا بیب کی رپورٹ کے مطابق، مختلف حکام کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے بعد افغان فورسز کی تربیت کے معاملے پر ابھی بہت کچھ غیر واضح ہے۔
امریکی خاتون رکن کانگریس کو انخلا کے بعد افغان خواتین کے لیے تشویش
امریکی ریاست فلوریڈا سے ایوان نمائندگان کی ڈیموکریٹک رکن لوئس فرینکل نے اس بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان سے بین الاقوامی انخلا کے بعد گزشتہ سالوں میں افغان خواتین کو جو حقوق حاصل ہوئے تھے، وہ قائم نہیں رہ سکیں گے۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کانگریس وومن لوئس فرینکل نے کہا کہ ہم اس بات پر توجہ چاہتے ہیں کہ ہم صرف ان حاصل حقوق کو ہی برقرار رکھنا نہیں چاہتے بلکہ چاہتے ہیں کہ لڑکیاں اور خواتین مزید آگے بڑھیں۔ ان کے بقول ہر ایک کی خواہش ہے کہ افغانستان میں خواتین ترقی کی راہ پر گامزن رہیں۔
لوئس فرینکل نے کہا کہ انہوں نے افغانستان سے متعلق کئی اراکین کانگریس سے بات کی ہے اور جو لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ اس بارے میں ہو کیا رہا ہے، ان کے بقول ان سب کو صورت حال پر گہری تشویش ہے۔