توہین مذہب کے جرم میں سزائے موت پانے والے لیکچرار جنید حفیظ کے والد نے حکام سے اپیل کی ہے کہ اُن کی بیٹے سے ملاقات کرائی جائے۔ جنید حفیظ پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر ملتان کی جیل میں قید ہیں۔
لیکن جیل حکام کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے پیشِ نظر قیدیوں کی لواحقین سے ملاقات کرانے پر پابندی عائد ہے۔
جنید حفیظ کے والد حفیظ النصیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کی جنید سے آخری ملاقات آٹھ مارچ کو ہوئی تھی۔ جس کے بعد کرونا وائرس کے پیشِ نظر جیل میں ملاقاتوں کا سلسلہ بند کر دیا گیا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ اور اُن کی اہلیہ بیٹے کی خیریت سے متعلق فکر مند رہتے ہیں۔ لہذٰا حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ اُن کی ملاقات کا خصوصی اہتمام کرایا جائے۔
خیال رہے کے ملتان کی مقامی عدالت نے توہین مذہب کے الزام میں گرفتار بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے سابق لیکچرار جنید حفیظ کو گزشتہ سال دسمبر میں توہین مذہب کیس میں سزائے موت سنا دی تھی۔
جنید حفیظ کو مارچ 2013 میں لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اُن پر الزام تھا کہ اُنہوں نے سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے پیغمبر اسلام کی توہین کی۔
Your browser doesn’t support HTML5
جنید حفیظ کی سزائے موت پر امریکہ سمیت انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے پر زور دیا تھا۔
جنید حفیظ کے والد کا کہنا ہے کہ کرونا سے قبل وہ ہر پیر کو جنید حفیظ سے ملاقات کرتے تھے۔ چاہے آندھی ہو یا طوفان وہ کوئی ناغہ نہیں کرتے تھے۔ لیکن دو ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا، اُن کی بیٹے سے ملاقات نہیں ہو سکی۔
حفیظ النصیر کا کہنا تھا کہ جیل انتظامیہ یہ کہتی ہے کہ عام قیدیوں کی تو لواحقین سے فون پر بات کرا دی جاتی ہے۔ لیکن توہین مذہب اور دہشت گردی کے مقدمات میں قید مجرموں کو یہ سہولت بھی میسر نہیں ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ جیل کنٹین میں کام کرنے والا ایک اہلکار جنید تک ضروری سامان پہنچاتا ہے، صرف اُسی کی زبانی یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ٹھیک ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں جنید کے والد نے بتایا کہ"اُن کی اہلیہ بیٹے کو یاد کر کے روتی رہتی ہیں۔ اُن کے بقول وہ بھی چھپ چھپ کر روتے ہیں۔ لیکن کیا کریں کوئی سننے والا نہیں، بس یہی التجا ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے بیٹے سے ملاقات کا بندوبست ہو جائے۔"
حفیظ النصیر کے بقول جنید کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ میں ہر ملاقات میں نئی کتابیں دے جاتا تھا اور پرانی واپس لے جاتا تھا۔ لیکن اب یہ بھی ممکن نہیں ہے۔
'طاقت وروں کے مقدمات کی سماعت بھی جلدی ہوتی ہے'
جنید حفیظ نے ماتحت عدلیہ کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ میں اپیل بھی دائر کر رکھی ہے۔
لیکن جنید حفیظ کے والد کا کہنا ہے کہ کئی ماہ گزر جانے کے باوجود اپیل کی فائل ہی تیار نہیں ہو سکی۔ اُن کے بقول عدالتی عملہ کہتا ہے کہ کیس کی فائل بننے میں دو سے تین سال لگ جاتے ہیں۔
حفیظ النصیر کا کہنا تھا کہ یہ کیسا انصاف ہے کہ طاقت ور طبقے کے سارے کام جلدی ہو جاتے ہیں، فائلییں بھی بن جاتی ہیں اور مقدمات کی سماعت بھی سرعت سے ہوتی ہے۔ لیکن اُنہیں انصاف کے حصول کے لیے طویل انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔
جیل انتظامیہ کا موقف
ترجمان محکمہ جیل خانہ جات پنجاب عامر رؤف خواجہ کہتے ہیں کہ جیل کے قواعد و ضوابط (جیل مینوئل) کے مطابق کسی بھی قیدی کو اپنے پاس ٹیلی فون رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
اُن کے بقول حکومت نے صوبے کی بیشتر جیلوں میں سرکاری ٹیلی فون بوتھ بنا رہے ہیں جس کے ذریعے قیدی اپنے اہل خانہ یا وکیل سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ترجمان جیل خانہ جات نے بتایا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے تمام قیدیوں سے ملاقات پر پابندی عائد ہے۔
عامر رؤف کے بقول جہاں حکومت نے جیلوں میں ٹیلی فون کی سہولت دے رکھی ہے وہاں ایک جیل میں 20 سے 25 ٹیلی فون بوتھ بنے ہوئے ہیں۔ جہاں سے قیدی کرونا وبا کے دنوں میں اپنے اہل خانہ سے روزانہ کی بنیاد پر بات کر سکتے ہیں۔
لیکن اُن کے بقول دہشت گردی، سزائے موت اور دیگر سنگین کیسوں میں سزا پانے والے مجرمان کی فون پر بھی اہل خانہ سے بات نہیں کرائی جاتی۔
عامر رؤف کے بقول اگر جنید حفیظ کے والد محکمہ داخلہ پنجاب سے تحریری اجازت نامہ حاصل کر لیں تو اُن کی بیٹے سے خصوصی ملاقات کرائی جا سکتی ہے۔