پاکستان کی سیاست میں ایک بار پھر دھرنے اور لانگ مارچ کی گونج سنائی دے رہی ہے اور اس مرتبہ ملکی سیاست میں سرگرم مذہبی سیاسی جماعت جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمان نے اسلام آباد کی جانب مارچ کی کال دی ہے۔
ماضی میں ہونے والے دھرنوں میں جہاں 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کو احتجاج کا جواز بنایا گیا۔ اس بار مذہب اور ناموس رسالت کے نام پر عوام کو اس مارچ میں شامل ہونے پر آمادہ کیا جارہا ہے۔
بعض سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اس مرتبہ بھی مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں ہونے والے دھرنے میں انہی نکات پر عوام کو اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ تاہم جمعیت علما اسلام (ف) کے جنرل سیکریٹری اور سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری اس سے متفق نہیں ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ جے یو آئی (ف) کے اسلام آباد کی جانب مارچ کے تمام محرکات سیاسی ہیں۔ تاہم اسے زبردستی مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جار ہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس مارچ میں تین بنیادی مطالبات سامنے رکھے جائیں گے۔ جس میں وزیرِ اعظم عمران خان کا استعفٰی، موجودہ اسمبلیوں کو تحلیل کیا جانا اور نئے انتخابات کا انعقاد شامل ہے۔
یاد رہے کہ جے یو آئی (ف) آئندہ ماہ اسلام آباد میں اجتجاج کا ارادہ رکھتی ہے جسے 'آزادی مارچ' کا نام دیا گیا ہے۔ اس مارچ میں شمولیت کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز سمیت تمام اہم جماعتوں سے رابطے میں ہے۔
مولانا عبدالغفور حیدری کا مزید کہنا تھا کہ مارچ ایک مجبوری بن چکا ہے کیونکہ مہنگائی اور ہر شعبہ زندگی میں پھیلتی بد انتظامی سے عوام تنگ آ چکے ہیں۔ چونکہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اس لیے اس مارچ کی گنجائش موجود ہے۔
اس سوال پر کہ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کئی سیاسی جماعتیں اس مارچ میں مذہب کو بطور کارڈ استعمال کرنے پر تحفظات رکھتی ہیں۔ مولانا حیدری کا کہنا تھا کہ یہ باتیں صرف اس لیے ہو رہی ہیں کیونکہ اب تک سب جماعتیں ساتھ مل کر نہیں بیٹھیں۔ مل کر بیٹھنے پر یہ ابہام دور ہو جائے گا۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا آئین اور قوانین اسلام کے تابع ہیں اور اس کی حفاظت بھی سب پر لازم ہے۔ مذہب کو الگ سے استعمال کرنے کی بات صرف ایک مخصوص لابی پھیلا رہی ہے۔ جو مارچ کی ناکامی چاہتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی مارچ میں شمولیت
مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سینیٹر پرویز رشید نے وآئس آف امریکہ کو بتایا کہ پارٹی قائد نواز شریف کی ہدایت پر اُن کی جماعت اس لانگ مارچ میں شامل ہو گی کیونکہ نواز لیگ کے ووٹرز ’ناکام معاشی پالیسیوں‘ سے تنگ آ گئے ہیں۔ اُن کے مطابق مسائل کا حل یہی ہے کہ ’نا اہل‘ حکومت گھر چلی جائے۔
پرویز رشید کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی لیڈر شپ کو ماضی قریب میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے طبقات میں مطابقت کی فضا پیدا کرنے کی وجہ سے خود تنقید کا سامنا رہا ہے اور ان کی جماعت جے یو آئی (ف) کے سیاسی مطالبات کی حامی ضرور ہے۔ لیکن وہ مذہب کو سیاست میں بلاوجہ لانے کی کسی کوشش کا حصہ نہیں بننا چاہتی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے گو کہ آزادی مارچ کی مشروط حمایت کا اعلان کیا ہے۔ لیکن صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں انہوں نے جے یو آئی (ف) سے نظریاتی اختلاف کا اشارہ دیا تھا۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں نے عوام میں ایک بے چینی پیدا کر دی ہے اور اُن پر بھی دباؤ ہے کہ وہ باہر نکلیں۔ اسی وجہ سے گڑھی خدا بخش میں کیے گئے جلسے کے دوران موجودہ حکومت اور 'سیلیکٹرز' کو یہ پیغام دے چکے ہیں کہ پی پی پی احتجاج کا ایک سلسلہ شروع کرے گی۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ نیب قوانین کو سیاسی مقاصد کے لیے ایسے وقت میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ جب کشمیر کے مسئلے پر تمام جماعتوں کو ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ لیکن حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اب مارچ کی باتیں ہو رہی ہیں۔
ناموس رسالت پر آزادی مارچ کی چندہ مہم کیوں؟
جے یو آئی (ف) نے آزادی مارچ کے لیے چندہ مہم شروع کر رکھی ہے۔ جس میں تحفظ ناموسِ رسالت کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس بارے میں پوچھے گئے سوال پر جے یو آئی (ف) کے مرکزی رہنما اور ترجمان حافظ حسین احمد کا کہنا تھا کہ ہر جماعت کا اپنا منشور ہے اور ان کی جماعت ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے۔ چندہ اکٹھا کرنے کی مہم ان کے اپنے ووٹرز تک محدود ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ موجودہ حکومت کے بہت سے ایسے نظریات ہیں۔ جو اُن کے بقول اسلامی جمہوری اقدار کے منافی ہیں۔ البتہ 'آزادی مارچ' کے حوالے سے دیگر جماعتوں سے الحاق 'ناقص' کارکردگی والی موجودہ حکومت کو جمہوری طریقے سے گھر بھیجنے تک محدود ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد انتظامیہ اور شرکا کے درمیان ممکنہ تصادم کے بارے میں جے یو آئی (ف) کے رہنما عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت ایک منظم جماعت ہے اور مختلف شہروں میں 15 مارچ کر چکی ہے۔ جو پُر امن طریقے سے اختتام کو پہنچے۔ تاہم اگر ریاستی اداروں نے کسی قسم کے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی تو اس کی ذمہ دار بھی انتظامیہ ہی ہو گی۔
مارچ کی حتمی تاریخ کے بارے مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ ابھی اس پر آخری مشاورت باقی ہے۔ البتہ مولانا فضل الرحمان اسلام آباد میں ہونے والی حالیہ پریس کانفرنس میں اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ یہ مارچ ممکنہ طور پر اکتوبر کے آخری عشرے میں ہو گا۔
جے یو آئی (ف) کے مطابق دیگر جماعتیں مارچ میں شمولیت سے متعلق جو فیصلہ بھی کریں۔ ان کی جماعت اپنے پروگرام کے مطابق مارچ کرے گی۔