پاکستان میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما مفتی کفایت اللہ کو اسلام آباد سے حراست میں لیے جانے کی اطلاعات ہیں تاہم اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ مفتی کفایت اللہ کو اسلام آباد سے گرفتار نہیں کیا گیا۔
دارالحکومت کی پولیس کے حکام کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں پولیس نے مفتی کفایت اللہ کی گرفتاری کے لیے نہ ہی کہیں چھاپہ مار ہے اور نہ ہی گرفتار کیا ہے۔
دوسری جانب جمعیت علماء اسلام نے مفتی کفایت اللہ کی گرفتاری کی تصدیق کی۔ جے یو آئی کے مطابق مفتی کفایت اللہ کو اسلام آباد کے سیکٹر ای-الیون میں ان کے ایک دوست کے فلیٹ سے علی الصبح حراست میں لیا گیا۔ بعد ازاں انہیں ہری پور جیل منتقل کیا گیا ہے۔
جے یو آئی (ف) کے مرکزی رہنما مفتی کفایت اللہ کی گرفتاری کی خبریں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب جمعیت علماء اسلام نے حکومت کے خلاف 'آزادی مارچ' کا آغاز کر دیا ہے۔
مفتی کفایت اللہ کو مانسہرہ پولیس نے تھری ایم پی او کے تحت اسلام آباد سے گرفتار کیا۔
جے یو آئی (ف) کے ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات اسلم غوری نے بھی ان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مفتی کفایت اللہ کو گزشتہ رات اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا۔
گرفتاری کی خیبر پختونخوا کی تصدیق
خیبر پختونخوا کی حکومت کے ترجمان شوکت یوسفزئی نے کہا ہے کہ مفتی کفایت اللہ کو تھری-ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ ان پر عوام کو اشتعال انگیزی پر اکسانے کا الزام تھا جس سے امن امان خراب ہونے کا امکان تھا۔
شوکت یوسف زئی کے مطابق ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں پرامن احتجاج کی اجازت دے سکتے ہیں مگر قانون توڑنے کی اجازت کسی کو نہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مفتی کفایت اللہ کو مانسہرہ پولیس نے اسلام آباد سے گرفتار کیا۔ بعد ازاں انہیں ہری پور جیل منتقل کیا گیا۔
مفتی کفایت اللہ کی گرفتاری کے حوالے سے ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ مانسہرہ پولیس نے اسلام آباد پولیس کو آگاہ کیے بغیر ہی اسلام آباد میں کارروائی کی اور انہیں گرفتار کرلیا۔
قانون کے مطابق ایک ضلع کی پولیس کو کسی دوسرے ضلع میں کارروائی کے لیے مقامی پولیس اسٹیشن کو مطلع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جس کے بعد متعلقہ پولیس اسٹیشن کا عملہ دوسرے ضلع کی پولیس کے ساتھ جا کر کارروائی میں حصہ لیتی ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پولیس حکام کا کہنا تھا کہ اس کیس میں مانسہرہ پولیس نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے از خود کارروائی کی ہے۔
گرفتاری کی وجہ کیا ہے؟
جمعیت علماء اسلام کے رہنما مفتی کفایت اللہ کو ماضی میں اگرچہ کوئی خاص شہرت حاصل نہ تھی لیکن آزادی مارچ کے اعلان کے بعد مختلف ٹی وی چینلز پر جے یو آئی کا موقف لینے کے لیے رہنماؤں اور قائدین کی ضرورت پڑی تو اکثر پروگرامات میں مفتی کفایت اللہ بھی اپنی جماعت کا موقف پیش کرنے کے لیے آنے لگے۔
حالیہ دنوں میں ایک ٹی وی پروگرام کے دوران پاکستان کی فوج کے ایک سابق بریگیڈیر پر شدید تنقید کو ان کی وجہ گرفتاری سمجھا جارہا ہے۔
اس پروگرام کے دوران مفتی کفایت اللہ نے سابق فوجی افسر کی موجودگی پر اعتراض کیا تھا۔ مفتی کفایت اللہ نے کہا تھا کہ بریگیڈیر صاحب کو صرف جنگ کے دنوں میں دفاعی امور پر تجزیے کے لیے آنا چاہیے۔ سیاسی معاملات میں ان کا کوئی کام نہیں ہے۔
مفتی کفایت اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جنرل مشرف، جنرل ضیا اور جنرل ایوب ان کے سابق باس ہیں جبکہ وہ میرے قومی مجرم ہیں،۔
اس کے علاوہ بھی مختلف یوٹیوب چینلز اور ٹی وی شوز میں وہ فوج پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔ مبصرین ان کی گرفتاری کی بھی یہی وجہ قرار دے رہے ہیں۔
تھری ایم پی او کیا ہے؟
مینٹننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) مجریہ 1960 کی شق نمبر تین کے مطابق اگر حکومت کو کسی شخص کی طرف سے امن عامہ میں خرابی پیدا کرنے کا خدشہ ہو تو اس شخص کو 30 دن کے لیے حراست میں لیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں ڈپٹی کمشنر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایک ماہ کی حراست کے بعد اس میں دو بار مزید توسیع بھی کریں۔
اس قانون کے تحت گرفتار شخص ہائی کورٹ میں اپیل کر سکتا ہے کہ اس کی گرفتاری کی وجوہات جاننے کے لیے ریویو بورڈ تشکیل دیا جائے۔
اس ایکٹ کا مقصد ناپسندیدہ عناصر کا اپنے اضلاع میں داخلہ روکنا یا پھر انہیں کسی بھی قسم کی شر انگیزی سے روکنا تھا لیکن سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حالیہ ادوار میں یہ قانون اکثر سیاسی مخالفین کو دبانے اور روکنے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔
اس ایکٹ کی شق 16 کے تحت چھ ماہ سے تین سال تک کسی شخص کو قید میں رکھا جا سکتا ہے۔
ایک اور جے یو آئی رہنما حافظ حمد اللہ 'غیر ملکی' قرار
حکومت نے بلوچستان کے علاقہ چمن سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر اور جمعیت علما اسلام کے رہنما حافظ حمد اللہ کو افغان شہری قرار دیا ہے جبکہ ان کی پاکستانی شہریت منسوخ کرتے ہوئے ان کا شناختی کارڈ معطل کر دیا ہے۔
اس بارے میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جے یو آئی کے حافظ حمد اللہ پاکستان کے شہری نہیں ہیں افغان شہری ہیں۔ اسی وجہ سے شناختی کارڈ منسوخ کیا گیا جبکہ تمام متعلقہ اداروں کو مراسلے کے ذریعے آگاہ بھی کر دیا گیا ہے۔
حافظ حمد اللہ کے افغان شہری ہونے کا معاملہ پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے ایک اعلامیے کے ذریعے سامنے آیا۔
پیمرا نے ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ نادرا نے 11 اکتوبر کو ایک مراسلہ پیمرا کو بھجوایا جس میں حافظ حمد اللہ کو ایلین (غیر ملکی) قرار دیا گیا ہے۔
نادرا کے مراسلے کی روشنی میں پیمرا نے حافظ حمد اللہ کی ٹی وی چینلز پر کوریج پر پابندی لگاتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ تمام ٹی وی چینلز حافظ حمد اللہ کو اپنے پروگرامات، ٹاک شوز اور خبروں میں مدعو نہ کریں کیونکہ وہ پاکستان کے شہری نہیں ہیں بلکہ ایلین (غیرملکی) ہیں۔
اس بار میں حافظ حمداللہ کا کا کہنا ہے کہ ان کی تیسری نسل اسی ملک میں رہ رہی ہے اور ان والد 1960 کی دہائی میں پاکستان میں موجود تھے۔ ان کے 16 بہن بھائی ہیں لیکن صرف ان کا شناختی کارڈ معطل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر میں غیر ملکی یا افغان شہری تھا تو اس بات کا خیال نادرا کو اب سے کئی سال پہلے کیوں نہیں آیا۔ صرف آزادی مارچ کے وقت کیوں آیا ہے۔
حافظ حمداللہ نے کہا کہ قانون کے مطابق اپنی پاکستانی شہریت ثابت کرنے کے لیے 1978 سے پہلے کا رہائشی ثبوت دینا ہوتا ہے۔ میرے والد 1975 میں سرکاری استاد تھے جبکہ 1968 میں میرے والد کے بنک اکاؤنٹ تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس حوالے سے قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے نادرا حکام کے فیصلہ کو عدالت میں چلینج کریں گے۔