افغانستان میں جنگی جرائم کی چھان بین کی درخواست مسترد

فائل

آئی سی سی نے افغانستان میں جنگی جرائم کی چھان بین کو مسترد کر دیا ہے۔

بین الاقوامی عدالت انصاف یا آئی سی سی کے اس فیصلے میں، جسے متاثرین کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا ہے، ججوں نےجمعے کے روز عدالت کے پراسیکیوٹرز کی جانب سے افغانستان میں جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جنگی جرائم اور تنازع سے منسلک امریکی فورسز کے مبینہ جرائم کے بارے میں تفتیش دوبارہ کھولنے کی درخواست مسترد کر دی۔

عدالت کے ایک بیان میں ججوں نے کہا ہے کہ کوئی بھی تفتیش انصاف کے مفادات حاصل نہیں کر پائے گی اور یہ پراسیکیوشن امکانی طور پر کامیاب نہیں ہو گی کیوں کہ امریکی اور افغان عہدے داروں اور طالبان سے، جنہیں درخواست میں ہدف بنایا گیا ہے، تعاون کی توقع نہیں ہے۔

انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ان متاثرین کے لیے ایک زبردست دھچکا ہے جو بلا کسی داد رسی کے سنگین جرائم کا نشانہ بن چکے ہیں۔

آئی سی سی کا فیصلہ یہ ضرور تسلیم کرتا ہے کہ پراسیکیوٹر فاٹو بنسوڈا کی جانب سے تفتیش دوبارہ کھولنے کی درخواست اس بارے میں غور کرنے کی ایک معقول بنیاد فراہم کرتی ہے کہ افغانستان میں آئی سی سی کے دائرہ اختیار میں جرائم کا ارتکاب ہوا ہے اور وہ ممکنہ مقدمات عدالت کے سامنے پیش کیے جا سکیں گے۔

ایک تحریری رد عمل میں عدالت کے پراسیکیوشن آفس نے کہا کہ وہ اس فیصلے اور اس کے مضمرات کا مزید تجزیہ کرے گا اور قانونی حل کے تمام طریقوں کو زیر غور لائے گا۔

یہ فیصلہ اس کے ایک ماہ بعد سامنے آیا ہے جب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ واشنگٹن، آئی سی سی کے عملے کے ان ارکان کے ویزے منسوخ کر دے گا یا انہیں دینے سے انکار کر دے گا جو افغانستان یا کسی اور جگہ امریکی فورسز کے مبینہ جنگی جرائم اور دوسری زیادتیوں کی تفتیش کریں گے۔

بینسوڈا کا امریکی ویزا پہلے ہی منسوخ کر دیا گیا ہے۔

ڈبلیو ٹی پی او کے مطابق وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ایک بیان میں ٹرمپ انتظامیہ نے اس فیصلے کو ان حب الوطنوں کے لیے ہی نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی کے لیے ایک بڑی بین الاقوامی کامیابی قرار دیتے ہوئے، اسے سراہا ہے۔

میڈیا ادارے ڈبلیو ٹی پی او کے مطابق ایک تحریری بیان میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ ان کے اقدامات کے بعد وہ عدالت کی جانب سے مسترد کیے جانے کا یہ فیصلہ سامنے آیا۔

انہوں نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ عدالت نے اپنے اقدامات پر نظر ثانی کی۔ تاہم، اسی چینل کے مطابق انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس کے صدر پیڑک بوڈوین نے اس فیصلے کو انصاف کے لیے ایک یوم سیاہ اور ایک افسوس ناک فیصلہ قرار دیا جو ایک انتہائی ناقص دلیل پر مبنی ہے۔

تفتیش دوبارہ کھولنے سے متعلق بنسوڈا کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ یہ معلومات موجود ہیں کہ امریکی فوج اور انٹیلی جینس کے اداروں نے افغانستان اور دوسرے مقامات میں، خاص طور پر 2003 اور 2004 کے عرصے میں تنازع سے منسلک قیدیوں کے خلاف اذیت رسانی، ظالمانہ برتاؤ، شخصی وقار کی توہین، آبرو ریزی اور جنسی تشدد کا ارتکاب کیا تھا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ افغان سیکورٹی فورسز نے سرکاری حراستی مراکز میں قیدیوں کو اذیت رسانی کا نشانہ بنایا تھا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان اور دوسرے شورش پسند گروپس 2009 سے اب تک 17 ہزار سے زیادہ عام شہریوں کو ہلاک کر چکے ہیں جن میں ہدف بنا کر ہلاک کیے جانے والے لگ بھگ 7 ہزار شہری شامل ہیں۔

افغانستان کے انسانی حقوق کے آزاد کمشن کی چیئر پرسن سیما ثمر نے، جنہوں نے اس تفتیش کے لیے بھرپور لابنگ کی تھی، کہا ہے کہ یہ فیصلہ متاثرین کے لیے مایوس کن ہے۔

ایسو سی ایٹڈ پریس کو کابل سے ٹیلی فون پر ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اس سے افغانستان میں ان جرائم کے قصورواروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جنہیں انصاف کے کٹہرے تک لائے جانے کا کم از کم تھوڑا سا خوف تو تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے لوگوں کو انصاف ملنے کی امید ختم ہو جائے گی اور ممکن ہے کہ وہ خود انتقام لینا شروع کر دیں جس سے ملک میں تنازع کو مزید ہوا ملے گی۔

عدالت نے ایک بیان میں کہا کہ پراسیکیوٹرز کو اب تک اس سلسلے میں پیش آنے والا تعاون کا فقدان اور کسی بھر پور تفتیش کے کھلنے سے تعاون میں مزید کمی کا امکان، کسی کامیاب تفتیش اور پراسیکیوشنز کے امکانات کو متاثر کرے گا۔

آئی سی سی کے پریس ریلیز کے مطابق ججوں نے کہا ہے کہ عدالت کو اپنے وسائل ترجیحی طور پر ان سرگرمیوں پر استعمال کرنے چاہیں جن میں کامیابی کے بہتر امکانات ہوں۔

ہومن رائٹس واچ نےکہا ہے کہ یہ فیصلہ ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔

گروپ کی ایسو سی ایٹ انٹرنیشنل جسٹس ڈائریکٹر پیریم پریت سنگھ نے کہا کہ ججوں کی دلیل موثر طور پر ریاستوں کو عدالت کی تفتیش کے ساتھ تعاون کی اپنی ذمہ داری سے الگ ہونے کا راستہ اپنانے کی اجازت دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قصور واروں کو یہ خطرناک پیغام ملتا ہے کہ وہ محض عدم تعاون اختیار کر کے خود کو قانون کی پہنچ سے دور کر سکتے ہیں۔