سابق وزیر اعظم نواز شریف نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی آمریت قائم ہے، اور بقول انکے، ’’ملک میں جو ہو رہا ہے وہ جوڈیشیل مارشل لاء سےکم نہیں ہے‘‘۔
اس بارے میں پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں میزبان قمر عباس جعفری نے پاکستان کے وزیر قانون چودھری محمود بشیر وِرک؛ ’پلڈاٹ‘ کے سربراہ احمد بلال محبوب اور پشاور یونیورسٹی کے اے زیڈ ہلالی سے بات کی۔
اپنے لیڈر نواز شریف کے کلمات کے بارے میں سوال پر وزیر قانون چودھری محمود بشیر وِرک نے کہا کہ ’’ملک میں ادارے اپنے حدود سے ہٹ کر بات کر رہے ہیں، جبکہ ملک کے مسائل کو حل کرنے کے لئے یکسوئی اور متحد ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے؛ جسکا جو فرض مقرر کیا گیا ہے اسکی مدد اور حمایت کرنے کی ضرورت ہے۔ اور لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت کی مدد کرنا چاہئے‘‘۔
انہوں کہا کہ ’’عدلیہ کا ادارہ اہم ہے۔ اسکا احترام ہونا چاہئے۔ لیکن یہ ادارے اس لئے نہیں ہیں کہ دوسرے اداروں کے کام میں رکاوٹ ڈالیں، بلکہ آئین اور قانون کی منشا یہ ہے کہ تمام ادارے مل کر کام کریں اور حکومت کا ساتھ دیں‘‘۔
میاں نواز شریف کے اس مؤقف کے بارے میں کہ ’’ملک میں جوڈیشیل مارشل لاء جیسی صورت حال ہے‘‘ جب پوچھا گیا کہ وہ اس بارے میں کیا سمجھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’’ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ لوگ اِسی انداز میں سوچیں‘‘۔
انہوں کہا کہ ’’مارشل لاء تو نہیں ہے۔ لیکن، یہ بھی تو ہے نہ کہ ایک خاص جماعت اور خاص ادارے کو جسطرح دباؤ میں رکھا گیا ہے اور خود اپنے اختیارات کو جس طرح توسیع دی گئی ہے وہ بھی تو مناسب نہیں ہے‘‘۔
اس سوال کے بارے میں کہ آپکے لیڈر کہتے ہیں کہ ملک میں چیف جسٹس کی آمریت قائم ہے آپکا اس بارے میں کیا مؤقف ہے، تو انکا کہنا تھا کہ ’’چیف جسٹس صاحب کے بارے میں کسی کا یا خود انکا یہ خیال ہے کہ ان میں بڑی طاقت ہے تو یہ انکی خام خیالی ہے۔ وہ آئین میں دئے گئے اختیارات کو سمجھیں۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے اختیارات استعمال کر رہے تو یہ انکی غلط فہمی ہے‘‘۔
اس بارے میں احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ یہ تو روزمرہ کی بات ہے کہ ہماری عدلیہ انتظامیہ کے بہت سے اختیارات استعمال کر رہی ہے اور عملاً ہماری انتظامیہ مفلوج ہوگئی ہے اور کم کم ہی نظر آتی ہے۔ اور یوں لگتا ہے کہ ملک تینوں ستونوں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات عدلیہ کے ہاتھوں میں آگئے ہیں۔ اور عدلیہ جسطرح لوگوں سے برتاؤ کرتی ہے یا ریمارکس دیتی ہے وہ عدلیہ کے بلند مقام سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اور ملک میں ایک تکلیف دہ صورت حال پیدا ہوگئی ہے جو مناسب نہیں ہے اور اس سے مزاحمت پیدا ہو سکتی ہے۔
اے زیڈ ہلالی کا کہنا تھا کہ ’’جس قسم کی صورت حال بنتی جا رہی ہے اس سے کوئی خوشگوار مستقبل نظر نہیں آتا‘‘۔ انکا کہنا تھا کہ ’’ملک کی سول انتظامیہ اس طرح کام نہ کرسکی جسکی توقع کی جاسکتی تھی۔ جس سے ایک خلاء پیدا ہوا اور ظاہر ہے کہ کسی کو تو اس خلاء کو پُر کرنا تھا جو عدالت پر کر رہی ہے‘‘۔
Your browser doesn’t support HTML5