کراچی۔پاکستان کے مرکزی سینسر بورڈ نے پاکستانی فلم 'جوائے لینڈ' کے کچھ حصے نکال کر اسے ریلیز کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
مرکزی سینسر بورڈ کے چیئرمین طاہر حسن نے وائس آف امریکہ کے عاصم علی رانا کو بتایا کہ فلم کے دو یا تین منٹ کے چند مختصر حصوں کو نکالا گیا ہے۔
ویسے تو پاکستان میں کئی فلموں کو ریلیزسے پہلے ہی بغیر کسی وجہ کے بین کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن 'جوائے لینڈ' کی ریلیز روکنے کے معاملے پر سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل سامنے آیا تھا۔
مصنف و ہدایت کار صائم صادق کی فلم کے پاس دنیا کے معتبر ترین فلم فیسٹیول کان میں جیتا ہوا ایوارڈ ہے، جو اس سے قبل کسی پاکستانی فلم کو نہیں ملا۔
فلم کی ریلیز روکنے پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فلم کے ہدایت کار صائم صادق نے کہا تھا کہ اس فیصلے سے انہیں دکھ تو پہنچا ہے لیکن وہ ہمت نہیں ہارے۔
ان کے بقول ان کی کوشش ہو گی کہ فلم 18 نومبر کو وقت پر ریلیز ہو کر عوام تک پہنچے تاکہ وہ خود اس کو دیکھنے یا نہ دیکھنے کا فیصلہ کرسکیں۔ دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنےوالی فلم کو پاکستان میں نمائش کا موقع دینا چاہیے کیوں کہ اس میں ایسا کچھ نہیں جس پر کسی کو بھی اعتراض ہو۔
یہ پہلا موقع نہیں جب حکومت نے کسی پاکستانی فلم کی ریلیز کو سینسر سے پاس ہونے کے بعد روکا تھا۔ گزشتہ سال مصنف و ہدایت کار ابو علیحہ کی فلم’جاوید اقبال، دی انٹولڈ اسٹوری آف اے سیریل کلر‘ کی نمائش کو کراچی میں پریمئیر کے بعد پنجاب حکومت کے حکم پر روک دیا گیا تھا جو آج بھی متعدد ایوارڈ جیتنے کے باوجود پابندی کا شکار ہے۔
'جوائے لینڈ' کے پروڈیوسر سرمد کھوسٹ کی بطور ہدایت کار فلم ’ زندگی تماشا‘ کی ریلیز بھی کئی بار اسی انداز میں مؤخر ہوچکی ہے۔ فلم کو مذہبی و سیاسی جماعتوں کی جانب سے اعتراض کی وجہ سے تاحال ریلیز نہیں کیا جاسکا۔
Those who saw #SaimSadiq’s #Joyland @Festival_Cannes or @TIFF_NET, others who can’t wait for this stunning Pakistani film are blown away by this new poster. Painting is by @Salmantoor The film opens in Pakistan in Nov. I really wish it can be shown in India also. @KhoosatFilms pic.twitter.com/zicWV6dBX5
— Aseem Chhabra (@chhabs) September 28, 2022
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے صائم صادق نے کہا ہے ان کی فلم کو ملک کے تینوں سینسر بورڈز نے پاس کردیا تھا، اس لیے کسی کے پاس اسے روکنے کا کوئی جواز نہیں تھا جب فلم کسی نے دیکھی ہی نہیں تو اس پر پابندی کیسی۔
SEE ALSO: 'جوائے لینڈ' کو جیوری ایوارڈ ملنا پورے پاکستان کی کامیابی ہے: سرمد کھوسٹ
صائم صادق پرامید ہیں کہ ان کی فلم کراچی اور لاہور میں ریلیز ہوگی کیوں کہ وفاقی حکومت کا فیصلہ صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں لاگو نہیں ہوسکتا۔ انہوں نےرواں سال ریلیز ہونے والی’ ڈاکٹر اسٹرینج ان دی ملٹی ورس آف میڈنیس‘ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس فلم پر وفاقی سینسر بورڈ نے پابندی لگائی ، لیکن سندھ سینسر بورڈ نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کردیا تھا۔
وہ ان تمام لوگوں کے شکرگزار ہیں جنہوں نے اس مشکل وقت میں ان کی فلم کے لیے آواز اٹھائی اور ان کے ساتھ کھڑے رہے۔ فلم پر پابندی سے آسکر میں نامزدگی متاثر ہونے کے خدشے پر انہوں نے کہا کہ فی الحال وہ فلم کی ریلیز کے علاوہ کچھ نہیں سوچ رہے۔
Please read this thread to the end and share it widelyI am so proud of the appreciation Joyland has received. I’m proud of the film maker @saim.sadiq & everyone attached to this film. pic.twitter.com/J6RoP1oehO
— Nadia Jamil (@NJLahori) November 13, 2022
’ اس وقت ہماری اولین ترجیح فلم کی ریلیز کو یقینی بنانا ہے ، ہم لوگ پرامید ہیں کہ 'جوائے لینڈ ' اس بندش سے جلد چھٹکارا پالے گی، اگر یہ فلم ملک میں ریلیز نہیں ہوتی تو اس سے اس کی اکیڈمی ایوارڈمیں نامزدگی پر فرق ضرور پڑ سکتا ہے۔ لیکن اس حوالے سے ہم ابھی نہیں سوچ رہے۔‘
کان فلم فیسٹیول میں ایوارڈ جیتنے والی فلم 'جوائے لینڈ' کو پاکستان میں ریلیز میں مشکلات کا سامنا کیوں تھا؟
رواں سال دنیا کے سب سے معتبر فلم فیسٹیول کان میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی فلم 'جوائے لینڈ' کی ریلیز پر حکومت پاکستان نے رواں ہفتے اچانک پابندی عائد کردی تھی۔ حکومت کا موقف تھا کہ انہیں فلم کے حوالے سے چند شکایات موصول ہوئیں جس کے بعد انہوں نے اس کی ریلیز کا سرٹیفیکیٹ معطل کردیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزارت اطلاعات ونشریات کےاس فیصلے پر نہ صرف فلمی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑی بلکہ اس فلم کو بنانے والوں نے بھی اس اقدام پر سوال اٹھایا جو تینوں سینسر بورڈز سے کلیرنس ملنے کے بعد لیا گیا۔
'جوائے لینڈ' کی کہانی لاہور میں ایک ایسے نوجوان کے گرد گھومتی ہے جو اسٹیج پر بطور ڈانسر کام کرتا ہے اور جسے اپنے ساتھ کام کرنے والے ایک ٹرانس جینڈر یعنی خواجہ سرا سے محبت ہوجاتی ہے۔ یہ فلم 18 نومبر کو ملک بھر میں ریلیز ہونی تھی لیکن حکومت کے اس فیصلے کے بعد اس کی ریلیز کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا تھا۔
If Joyland is banned by @MoIB_Official despite getting clearance from 3 censor boards, it will send a clear message to all Pakistani creative geniuses not to produce any globally relevant art since 🇵🇰 is dominated by extremist thought. Don%27t do this @Marriyum_A #ReleaseJoyland pic.twitter.com/kY1qO13rTx
— Hamza Azhar Salam (@HamzaAzhrSalam) November 13, 2022
بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ فلم کا ٹریلر رواں ماہ کے آغاز میں ریلیز کیا گیا، جس کے بعد سے فلم تنقید کی زد میں ہے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے 'جوائے لینڈ 'پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فلم پاکستانی معاشرتی اقدار کے خلاف ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے اس کی نمائش پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک ایسی فلم جسے ایل جی بی ٹی کے موضوع کی عکاسی کرنے والی فلموں کو دیا جانے والا ایوارڈ دیا گیا ہو، اس کی پاکستان میں نمائش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
پی ڈی ایم حکومت کاہم جنس پرستی کےابلاغ پرمبنی فرانسسی ایوارڈیافتہ فلم جوائےلینڈکی پاکستان میں نمائش کی اجازت کی مذمت کرتاہوں،اس فلم کی نمائش روکنے،عوام کوآگاہ کرنےکے لیےہرجائز/قانونی ذرائع کرینگے۔یہ فلم اسلام،ہمارےملک کےمعاشرتی اقدارکےخلاف اعلان جنگ ہے۔#Joyland #queer pic.twitter.com/cMo1Qv8mxQ
— Senator Mushtaq Ahmad Khan (@SenatorMushtaq) November 3, 2022
سینیٹر مشتاق احمد خان کے خیال میں آسکر کے لیے بھیجی جانے والی اس فلم میں ہم جنس پرستی کو فروغ دیا گیا ہے، ان کے بقول اس فلم کے ذریعے پاکستان کے معاشرتی اقدار پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
سینیٹر کی یہ ویڈیو نومبر کے آغاز پر منظر عام پر آئی تھی جس کے جواب میں دس دن بعد ہی حکومت پاکستا ن نے اس فلم کو دیا گیا اجازت نامہ منسوخ کردی، جس کا اعلان بھی سینیٹر مشتاق احمد خان نے اپنے ٹوئٹر پر کیا۔
الحمدللہ! @GovtofPakistan نےمتنازع فلم جوائےلینڈکوجاری کردہ نمائش کالائسنس منسوخ کردیاہے۔نوٹیفیکیشن جاری،یہ حکومت کااحسن اقدام ہے۔پاکستان اسلامی مملکت ہےیہاں کوئی قانون، کوئی اقدام،کوئی نظریہ خلافِ اسلام نہیں چل سکتا۔#BanJoyland pic.twitter.com/tib00zo6Dd
— Senator Mushtaq Ahmad Khan (@SenatorMushtaq) November 12, 2022
یہی نہیں، معروف ڈیزائنر ماریہ بی نے بھی اس فلم پر پابندی کے مطالبے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا تھا۔اپنی انسٹاگرام اسٹوری پر انہوں نے اس فلم پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس فلم میں خواجہ سراؤں کے حقوق سے زیادہ اسلامی معاشرے میں ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کی بات کی گئی ہے۔
Famous designer Maria B urged all Pakistanis to speak up and raise their voices to ban Joyland because "it shows an extramarital affair between two men but also encourages gender transition 🔗https://t.co/vQFzcIMCSG#DialoguePakistan #MariaB #Joyland #Ban #Surgery #Fitna pic.twitter.com/IyRWSVjH7m
— Dialogue Pakistan (@DialoguePak) November 12, 2022
'جوائے لینڈ' کے حق میں شوبز شخصیات کا ردِعمل، ڈسٹری بیوٹر بھی پروڈیوسرز کے ساتھ کھڑے ہیں
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک فلم جسے پاکستان میں کسی نے نہیں دیکھا، اس پر کیسی شکایت اور کیسا اعتراض، سنسر بورڈ کے اجازت نامے کے بعد اس فلم پر پابندی کیسے لگائی جاسکتی ہے؟ یہی سوال تھا فلم میں کام کرنے والی اداکارہ ثروت گیلانی کا جنہوں نے سینسرسرٹیفیکیٹ کی منسوخی کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔
There’s a paid smear campaign doing rounds against #Joyland, a film that made history for Pakistani cinema, got passed by all censor boards but now authorities are caving into pressure from some malicious people who have not even seen the film. #ReleaseJoyland @MoIB_Official
— sarwat gilani (@sarwatgilani) November 12, 2022
ثروت گیلانی کے مطابق اس فلم کو بنانے میں دو سو سے زائد پاکستانیوں کا خون پسینہ شامل ہے، جنہوں نے چھ سال کے عرصے تک اس پر کام کیا۔ اسے کان، ٹورنٹو اور قاہرہ میں’اسٹینڈنگ اوویشن‘ ملا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جس ملک کی یہ کہانی ہے، اسی میں اس کی نمائش پر پابندی لگادی گئی ہے۔
شوبز سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے 'جوائے لینڈ 'کی ریلیز کا مطالبہ کیا جس میں اداکار ہمایوں سعید، عثمان خالد بٹ، اداکارہ نادیہ جمیل ، اور ہدایتکارہ مہرین جبار قابلِ ذکر ہیں۔
دوسری جانب فلم کے ڈسٹری بیوٹرز ڈسٹری بیوشن کلب کے چیرمین شیخ امجد رشید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سینسر سے پاس ہوجانے کے باوجود فلم کی ریلیز کو روکنے کے اقدام کو سمجھ سے باہر قرار دیا ہے۔
ان کے مطابق اس قسم کے فیصلوں سے ملک میں فلم سازی کو نقصان پہنچے گا اور ایسے موضوعات کو سامنے لانے میں مشکلات پیش آئیں گی جن پر بات کرنی ضروری ہے۔
Pakistan Bans Oscar Contender ‘Joyland’ for its ‘Repugnant’ Material https://t.co/6RgauOSMbp
— Variety (@Variety) November 13, 2022
’ جب بھی کوئی بھی ڈسٹری بیوٹر کوئی فلم اٹھاتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ فلم زیادہ سے زیادہ لوگ دیکھیں۔ لیکن کوئی یہ نہیں چاہتا اور سوچتا کہ ان کی فلم پر پابندی لگ سکتی ہے۔ ہر فلم کے پیچھے ہزاروں لوگوں کی محنت ہوتی ہے جس پر پابندی لگانا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ ‘
’ بطور ڈسٹری بیوٹر ہم نے بھی یہی سوچا تھا کہ’جوائے لینڈ 'جیسی فلم جس نے پاکستان کو متعدد انٹرنیشنل ایوارڈز دلوائے اس کو پاکستان میں اسکرین کرکے سنیما بینوں کو بتاسکیں کہ یہاں پر بھی اچھی فلمیں بن سکتی ہیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ یہ فلم جلد از جلد اسکرین پر نظر آئے تاکہ ان لوگوں کو بھی اندازہ ہو کہ اس میں ایک خوبصورت پیغام ہے، جو اس کی مخالفت کررہے ہیں۔‘