بھارت میں وزیرِ اعظم نریندر مودی حکومت کی ناقد صحافی رعنا ایوب کو بیرونِ ملک سفر سے روکنے پر بھارت میں صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سخت ردِعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ممبئی ایئرپورٹ پر امیگریشن حکام نے منگل کو سرکردہ بھارتی خاتون صحافی اور مصنفہ رعنا ایوب کو لندن جانے والی پرواز کی روانگی سے قبل جہاز میں سوار ہونے سے روک دیا تھا۔
رعنا نے بتایا کہ وہ لندن میں انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس (آئی سی ایف جے) کے زیرِِ اہتمام ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے جا رہی تھیں۔ اُن کے بقول کانفرنس کا موضوع سوشل میڈیا پر ٹرولنگ جیسے موضوعات پر اظہارِ خیال کرنا تھا۔
رعنا ایوب کا کہنا تھا کہ وہ لندن سے اٹلی جانے کا ارادہ بھی رکھتی تھیں جہاں انہیں وہاں منعقد ہونے والے ایک بین الاقوامی صحافتی میلے کے دوران بھارت میں جمہوریت کے موضوع پر اظہارِ خیال کرنا تھا۔
Journalist @RanaAyyub will be sharing her experiences as a woman journalist in India in an #ijf22talk moderated by our VP of Global Research @julieposetti. Add the event to your calendar now: https://t.co/3Duttqug6q @journalismfest pic.twitter.com/TKSvqR0zHM
— International Center for Journalists (@ICFJ) March 29, 2022
'رعنا ایوب انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کو مطلوب ہیں''
بھارتی امیگریشن حکام کا کہنا ہے کہ رعنا ایوب کو غیر ملکی سفر کرنے سے اس لیے روکا گیا کیونکہ حکومتی ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے انہیں یکم اپریل کو طلب کر رکھا ہے۔
'ای ڈی' نے رواں برس فروری میں رعنا ایوب پر فراڈ اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت اُن کے اکاؤنٹ میں موجود ایک کروڑ 77 لاکھ روپے منجمد کر دیے تھے۔
I was stopped today at the Indian immigration while I was about to board my flight to London to deliver my speech on the intimidation of journalists with @ICFJ . I was to travel to Italy right after to deliver the keynote address at the @journalismfest on the Indian democracy
— Rana Ayyub (@RanaAyyub) March 29, 2022
رعنا نے کرونا وائرس کے متاثرین کی مدد کے لیے رقوم جمع کی تھیں لیکن 'ہندو آئی ٹی سیل' نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے ان پر اس فنڈنگ میں خرد برد کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اس تنظیم کی شکایت پر ریاست اترپردیش کی پولیس نے گزشتہ برس ستمبر میں قانون کی متعلقہ دفعات کے تحت ان پر مقدمہ درج کیا تھا۔
رعنا ایوب کی خود پر عائد الزامات کی تردید
رعنا ایوب مختلف مواقع پر اپنے اُوپر لگنے والے الزامات کو مسترد کرتی رہی ہیں، اُن کا یہ مؤقف رہا ہے کہ مودی حکومت پر تنقید کرنے کی وجہ سے اُنہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
جب کہ حکومت کا یہ مؤقف ہے کہ رعنا ایوب کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی گئی ہے، لہذٰا حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔
اقوام ِمتحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا کہنا تھا کہ رعنا کو قانون کی آڑ میں پریشان کیا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
کونسل اور بعض صحافتی تنظیموں نے اس بات پر تشویش اور تعجب کا اظہار کیا تھا کہ فراڈ اور منی لانڈرنگ کے الزامات پر چھ ماہ میں دوسری مرتبہ رعنا کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے گئے۔
All these events with @julieposetti @DoughtyStIntl @journalismfest have been planned and publicised all over my social media for weeks. Yet, curiously the Enforcement directorate summon arrived in my mail much after I was stopped at the immigration. What do you fear ?
— Rana Ayyub (@RanaAyyub) March 29, 2022
کونسل کا کہنا تھا کہ ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ رعنا بطور انوسٹی گیٹو صحافی بھارت میں مسلم اقلیت سے برتاؤ اور کرونا وبا سے مبینہ طور پر درست طور پر نہ نمٹنے جیسے معاملات پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔
رعنا ایوب کون ہیں؟
رعنا یکم مئی 1984 کو ممبئی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد محمد ایوب واقف ممبئی سے شائع ہونے والے ہفتہ روزہ بلٹز میں ایک کالم نویس تھے۔ممبئی شہر میں 1992 اور 1994میں پیش آئے فسادات کے دوران ہی ان کا خاندان مسلم اکثریتی علاقے دیونار چلا گیا جہاں رعنا کی پرورش ہوئی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد رعنا نے صحافت کوپیشے کے طور پر اختیار کرلیا اور دہلی سے شائع ہونے والے تحقیقاتی اور سیاسی جریدے 'تہلکہ' کے لیے لکھنے لگیں۔ ان کی بھارت اور بھارت کے باہر شائع ہونے والی رپورٹیں اور مضامین میں اکثر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
بعد ازاں رعنا نے گجرات میں 2002 میں پیش آئے مسلم کش فسادات کے بارے میں'گجرات فائلز' کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی جس میں ان فسادات کے دوران نریندر مودی کی قیادت میں صوبائی حکومت کے مبینہ کردار اور بلوائیوں کے حوالے سے نرم رویے کو بے نقاب کیا گیا۔
رعنا نے رواں برس جنوری میں ایک ٹوئٹ کرکے یمن میں جاری جنگ کے متاثرین سے ہمدردری کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ "یمن خون آلودہ ہے اور خون کے پیاسے سعودیوں کو روکنے والا کوئی نظر نہیں آ رہا ہے۔ وہ لوگ اپنے آپ کو اسلام کے نگران کہلاتے ہیں۔"
رعنا کی اس ٹوئٹ کو تقریباً نو ہزار لوگوں نے لائیک کیا اور 2800 لوگوں نے اسے ری ٹوئٹ کیا۔ لیکن ان کی اس ٹوئٹ پر انہیں شدید نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا اور تقریباً 27 ہزار ایسی ٹوئٹس کی گئیں جس میں ان کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے یہاں تک کہ انہیں جان سے مارنے کی بھی دھمکیاں دی گئیں۔
انہوں نے اس وقت وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا یہ صورتِ حال انتہائی تکلیف دہ ہے۔ یہ صریحاً ذہنی ایذا رسانی ہے جس نے نہ صرف مجھے بلکہ میرے اہلِ خانہ کو بھی بری طرح متاثر کر دیا ہے۔ اس سے میرا کام اور زندگی کے باقی معمولات بھی متاثر ہوئے ہیں۔"