عرب ممالک میں عوامی تحریکیں اور صحافیوں کو خطرات

شام میں ہلاک ہونے والے فرانسیسی ٹیلیویژن رپورٹر ژِیل جیکوئر (فائل فوٹو)

پیرس میں قائم صحافیوں کے مفاد کی نگرانی کرنے والے گروپ رپورٹرز ودآؤٹ باڈرز نے اندازہ لگایا ہے کہ 2011ء کے دوران مشرق ِ وسطیٰ میں 20 صحافی ہلاک کیے گئے اور 553 کو حملوں اور دھمکیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ تعداد دنیا میں کسی بھی علاقے کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

عرب دنیا میں عوامی تحریکوں کو شروع ہوئے ایک سال گزر چکا ہے۔ ان تحریکوں کے بارے میں خبریں دینے کے دوران جو صحافی ہلاک ہوئے ہیں، گرفتار کیے گئے ہیں اور حملوں کا نشانہ بنے ہیں ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

حال ہی میں فرانسیسی ٹیلیویژن رپورٹر ژِیل جیکوئر شام میں ہلاک ہو گئے۔ صحافیوں کی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈ کے مطابق گذشتہ سال مشرقِ وسطیٰ صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک علاقہ ثابت ہوا۔

فرانس نے مطالبہ کیا ہے کہ فرانس ٹو کے ٹیلیویژن رپورٹر ژِیل جیکوئر کی ہلاکت کی مکمل تفتیش کی جائے۔ وہ پہلے مغربی صحافی ہیں جو شام میں دس مہینے پہلے حکومت کے خلاف تحریک شروع ہونے کے بعد ہلاک ہوئے ہیں۔

بہت سے صحافیوں کے برعکس جنھوں نے ویزا لیے بغیر چوری چھپے شام میں داخل ہونے کی کوشش کی ہے 44 سالہ جیکوئر حکومت سے اجازت لے کر شام کے شہر حمص پہنچے تھے۔ وہ حکومت کی حمایت میں ہونے والے ایک اجتماع کو کور کرنے کے دوران راکٹ لگنے سے ہلاک ہو گئے۔

جیکوئر کہنہ مشق جنگی نامہ نگار تھے جنھوں نے عراق، افغانستان، کانگو اور بلقان سمیت بہت سی جنگوں کو کور کیا تھا۔ ایک انٹرویو میں فرانس ٹیلیویژن انفارمیشن کے ڈائریکٹر ٹیئری ٹیلئیوئر نے انہیں صحیح معنوں میں ایک مشاق صحافی اور بے خوف رپورٹر قرار دیا جن کے مداحوں اور دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔

جیکوئر کی موت سے عرب دنیا میں عوامی تحریکوں کے دوران ہلاک ہونے والے اور گرفتار اور حملوں کا نشانہ بنائے جانے والے صحافیوں کی روز افزوں تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

پیرس میں قائم صحافیوں کے مفاد کی نگرانی کرنے والے گروپ رپورٹرز ودآؤٹ باڈرز نے اندازہ لگایا ہے کہ 2011ء کے دوران مشرق ِ وسطیٰ میں 20 صحافی ہلاک کیے گئے اور 553 کو حملوں اور دھمکیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ تعداد دنیا میں کسی بھی علاقے کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

(فائل فوٹو)


رپورٹرز ودآؤٹ باڈرز کے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے بیورو کے سربراہ ژوزگ ڈولیٹ کہتے ہیں کہ ’’گذشتہ سال سے اب تک تمام عرب ملکوں میں عوامی تحریکوں کے بارے میں جو چیز مشترک رہی ہے وہ یہ ہے کہ تمام حکومتوں نے اطلاعات کی ترسیل کو روکنے کی کوشش کی۔ ان سب نے پہلے مظاہروں اور احتجاجوں کے بارے میں خبروں کا بلیک آؤٹ کرنا چاہا اور پھر ان احتجاجی مظاہروں کو کچلنے کے بارے میں خبروں کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے مقامی میڈیا پر حملے کیے اور غیر ملکی صحافیوں کو ملک میں داخل ہونے سے روکا۔‘‘

ڈولیٹ کہتے ہیں کہ شام میں عوامی تحریک شروع ہونے کے بعد سے اب تک جتنے صحافی ہلاک ہوئے ہیں ان میں جیکوئر کا نمبر چوتھا ہے۔ فرانسیسی حکومت کی طرح رپورٹرز ودآؤٹ باڈرز نے بھی شام کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس بات کی مکمل تفتیش کی جائے کہ جیکوئر کن حالات میں ہلاک ہوئے۔ ’’ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ غیر ملکی صحافی شام نہ جائیں۔ شام میں کیا ہو رہا ہے دنیا کو اس کے بارے میں خبریں ملنی چاہئیں۔ شام کے اندر نہ جانے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم شام کی حکومت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ہمیں غیر ملکی صحافیوں کی ضرورت ہے جو موقعے پر موجود ہوں ۔ شام میں کیا ہو رہا ہے، یہ جاننے کے لیےغیر ملکی صحافی ہی معلومات کا غیر جانب دار ذریعہ ہوں گے۔‘‘

یمن، لیبیا، مصر میں عوامی تحریکوں کے دوران اور ایک سال قبل تیونس کے نسبتاً پرُ امن انقلاب کے بارے میں خبریں دینے کے دوران بھی صحافی ہلاک ہوئے تھے۔