صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود اؤٹ بارڈرز نے اپنی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کی گزشتہ سال کے مقابلہ میں تین درجے تنزلی کرتے ہوئے دنیا کے 180 ممالک میں سے پاکستان کو 145 ویں نمبر پر رکھا ہے۔ گزشتہ سال پاکستان 142 ویں نمبر پر تھا۔
پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز کہتے ہیں کہ ان کے دور میں کسی اخبار یا ٹی وی پر کوئی پابندی نہیں، لیکن بھارت کی طرف سے ڈس انفو لیب جیسی حرکتوں کی وجہ سے پاکستان کی اس فہرست میں تنزلی ہوئی ہے۔
رپورٹرز ود اؤٹ بارڈرز کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان کی صحافت کو پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر بتایا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2018 میں حکومت میں تبدیلی کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا اثر و رسوخ ڈرامائی طور پر بڑھا ہے۔ میڈیا پر دباؤ بڑھانے اور سینسر شپ کے لیے مبینہ طور پر مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ہیں۔
آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ جن صحافیوں نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کرنے کی کوشش کی، ان کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کی مہم چلائی گئی۔
جب کہ پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بقول ان کے کسی اخبار یا ٹی وی پر کوئی پابندی نہیں، لیکن یہ تنزلی ہونا بھارت کی ڈس انفو لیب جیسے آپریشنز کی وجہ سے ہے۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں میڈیا کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ کسی اخبار یا نیوز چینل پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا جا رہا، لیکن بین الاقوامی سطح پر بھارتی ایما پر پاکستان کے خلاف جو کمپینز چلائی گئیں، یہ اسی کے نتائج ہیں کہ پاکستان کی تین درجہ تنزلی ہوئی ہے۔
آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فیلڈ میں کام کرنے والے صحافی بدستور خطرات کا شکار ہیں اور بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں کام کرنے والے صحافیوں کو سیکیورٹی فورسز اور مسلح جنگجوؤں سے خطرات کا سامنا ہے۔ اس بارے میں پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی نے الزام لگایا کہ پاکستان میں سوشل میڈیا رولز اور ایسے قوانین کے ذریعے روزانہ دباؤ میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
ناصر زیدی کا کہنا تھا کہ یہ رائے صرف رپورٹرز ود اؤٹ بارڈرز کی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مختلف اداروں کی ہیں کہ پاکستان میں آزادی صحافت کا انڈیکس گر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملہ پر عدالتوں میں جا رہے ہیں کہ حکومت کو آئین میں دی گئی آزادیاں چھیننے سے روکا جائے۔
رپورٹ کے مطابق رواں سال چار صحافی اور ایک بلاگر کو مبینہ طور پر ان کے سال 2019 میں کیے گئے کام کی وجہ سے قتل کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ صحافیوں کے خلاف تشدد اور ہراساں کیے جانے کا سلسلہ بھی لگاتار جاری ہے۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق 2020 میں دنیا بھر میں 50 صحافی اور میڈیا کارکنوں کو ان کے کام کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بیشتر صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کو ایسے خطوں میں قتل کیا گیا جہاں جنگ نہیں چل رہی تھی۔
رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سال 2020 میں میکسیکو سب سے خطرناک ملک تھا، جہاں 8 صحافی یا میڈیا ورکرز کو نشانہ بنایا گیا۔ میکسیکو میں منشیات اسمگلروں اور سیاستدانوں کے مابین روابط باقی ہیں اور جو صحافی ان سے متعلقہ معاملات سے پردہ ہٹانے کی ہمت کرتے ہیں انہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنگ زدہ افغانستان میں 5 صحافی مارے گئے۔