اردن کی شاہی شادی: مشکل معاشی حالات سے لڑتے شہری بھی مسکرا اٹھے

اردن کا نیا شاہی جوڑا

اردن کے ولی عہد شہزادہ حسین عبداللہ ثانی نے سعودی عرب میں شہزادیوں کی سی زندگی گزارنے والی ایک ارب پتی گھرانے کی اعلی تعلیم یافتہ خاتون رجوا السیف کو اپنا جیون ساتھی بنا لیا ۔شادی کی اس تقریب کو اردن اور ساری دنیا کےسوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لائیو دیکھا گیا ۔

دلہن قیمتی سفید لباس میں ملبوس ، رولز رائس کی چار دروازوں کی اس لیمو زین میں ،جسے ان کی مرحومہ دادی کی مرضی سے بنوایا گیا تھا، ظہران محل پہنچی ۔ جب کہ اس سے پہلے ولی اردن کے ولی عہد مکمل رسمی فوجی یونیفارم میں سونے کے دستے والی تلوار سجائےوہاں پہنچے۔

ظہران محل میں جہاں شادی کی تقریب ہوئی، 1993 کے بعد ایسی شاندار تقریب دیکھی گئی، جب ماہِ جون کے ایک ایسے ہی روشن دن شاہ عبداللہ نے ملکہ رانیا سے شادی کی تھی جو کویت میں ایک فلسطینی گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ اس سے کئی عشرے قبل، عبداللہ کے والد شاہ حسین نے اسی باغ میں اپنی دوسری اہلیہ انٹونی گارڈینر سے شادی کا بندھن باندھا تھا جو ایک برطانوی شہری تھیں اور شادی کے بعد موناالحسین کہلائیں۔

خاندان اور مہمان پھولوں اور باغات سے گھری ایک کھلی فضا میں رسم نکاح کے لیے اکٹھے ہوئے جسے اردن میں کتب الکتاب کہا جاتا ہے ۔ نکاح نامے پر دستخط ہوتے ہی فضا تالیوں سے گونج اٹھی ْ کئی میل دور قدیم رومن ایمفی تھیٹر میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ایک بڑی اسکرین پر دولہا اور دلہن کو ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنانے کی رسم کو دیکھ کر بے پناہ خوشی و مسرت کا اظہار کیا۔

شادی کی تقریب کا ایک منظر، یکم جون دو ہزار تئیس

کئی منٹ کی خاموشی کے بعد لگ بھگ 18 ہزار لوگوں کا ایک ہجوم پرچم لہراتا اور خوشی و مسرت کا پر جوش اظہار کرتا ہوا سڑکوں پر نکل آیا جب کہ ملک بھر میں بھی اس تقریب کو اسی طرح لائیو اسٹریمنگ میں دیکھا گیا۔

اس تقریب میں دنیا بھر کے شاہی خاندانوں کے افراد اور دوسری اہم شخصیات نے شرکت کی جن میں امریکہ کی خاتون اول جل بائیڈن اور ان کی بیٹی ایشلے شامل تھیں۔

برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ پرنس ولیم اور ان کی اہلیہ کیٹ بھی اس شادی میں شریک ہوئیں۔جب کہ امریکہ سے ماحولیات کے سفیر جان کیری اور دوسرے شرکا شادی کی تقریب میں شامل تھے۔

برطانیہ کی شہزادے پرنس ولئیم اور ان کی اہلیہ کیٹ مڈلٹن نے بھی شادی میں شرکت کی۔

رجوا السیف کی والدہ کا تعلق ایسے ہی با اثر گھرانے سے ہے جیسا کہ شاہ سلمان کی مرحومہ والدہ کا تھا۔ ان کے ارب پتی والد کی سعودی عرب میں کنسٹرکشن کی ایک بڑی کمپنی ہے ۔ جب کہ ملک بھر میں بڑے بڑے ہجوموں نے مسند اقتدار کے نئے جوڑے کی شادی پر اپنی بے انتہا خوشی اور مسرت کااظہار کیا ۔

جمعرات کی صبح شادی کی تقریب کے مہمان اور سیاح عمان کے فور سیزن ہوٹل کی سنگ مرمر کی لابی سے گزرے

شاہی جوڑے کی ایک جھلک دیکھنے کو ہزاروں لوگ سڑکوں پر کھڑے تھے۔

اردن کےایک کروڑ دس لاکھ شہری حالیہ برسوں میں نوجوان ولی عہد شہزادے کو اپنے والد کے ساتھ عوامی مقامات پر دیکھ چکے ہیں ۔

حسین نے جارج ٹاون یونیورسٹی سے گریجو ایشن کی، جس کے بعد وہ فو ج میں شامل ہوگئے اور انہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب سے کچھ عالمی شہرت حاصل ہوئی ۔

سیاسی تجزیہ کار امر سبیلہ کہتے ہیں کہ یہ شادی صرف ایک شادی ہی نہیں بلکہ شہزادے کو اردن کے مستقبل کے بادشاہ کے طور پر نمایاں کرنے کا بھی ایک ذریعہ بنایا گیا ہے۔

ان کاکہنا ہے کہ اس شادی نے اردن کے لوگوں کو ایک سخت اقتصادی مشکل دور میں جس میں نوجوانوں کو مستقل بے روزگاری کا سامنا ہے اور معیشت کمزور ہے ، خوشی کا ایک مختصر موقع فراہم کیا ہے ۔

ماہرین اس شادی کو مشرق میں آل سعود کے تاریخی حریف ہاشمیوں کے لیے ایک فائدہ مند اتحاد سمجھتے ہیں۔ اردن نے حال ہی میں سعودی عرب اور دیگر خلیجی عرب ریاستوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ہے، جنہوں نے کبھی امداد پر انحصار کرنے والے اس ملک کو اربوں ڈالر دیے تھے لیکن بعد میں اپنا ہاتھ روک لیا۔

اگرچہ شادی کے دن اردن بھر میں ریسٹورنٹس میں شادی کے نغمے بجتے رہے اور اندرون شہر میں کاروں نے ہارن بجا بجا کر جشن منایا لیکن کچھ نےشاہی خاندان کی افسانوی کہانی پر تنقید کی کیوں کہ اردنی شہری اپنی گزر اوقات کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں۔

اس شادی نے اردن اور سعودی عرب کے دو شہریوں اور دو خاندانوں کے درمیان زندگی بھر کا رشتہ ہی نہیں بلکہ شرق وسطی کے دو اہم ملکوں کے درمیان ایک ایسا نیا تعلق قائم کر دیا ہے جو ان کے درمیان رابطوں کو مزید مضبوط کرے گا ۔

اس رپورٹ کامواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیاگیا ہے۔