اردن میں سزائے موت کی بحالی، اقدام کی مذمت

فائل

اُنھوں نے پاکستان پر بھی نکتہ چینی کی، جہاں گذشتہ ہفتے طالبان کے ہاتھوں اسکول میں قتلِ عام کے نتیجے میں سزائے موت کو بحال کیا گیا ہے

اقوام ِمتحدہ کےحقوق انسانی کے سربراہ نے اپنی شہریت والے ملک، اردن میں، سزائے موت کی بحالی کے اقدام کی مذمت کی ہے۔

اردن نے آٹھ برس سے جاری سزائے موت پر پابندی ختم کرتے ہوئے، اتوار کے روز 11 مجرموں کو پھانسیاں دیں۔

انسانی حقوق کے ہائی کمشنر، زید رعد الحسین نے کہا ہے کہ پھانسیاں دینے سے جرائم کی شرح میں کمی نہیں لائی جاسکتی، جب کہ اُن کا کہنا تھا کہ اکثر ایسی مثالیں سامنے آتی رہی ہیں، جِن سے پتا چلتا ہے کہ سزائے موت پانے والے قیدی بے گناہ تھے۔
اُنھوں نے پاکستان پر بھی نکتہ چینی کی، جہاں گذشتہ ہفتے طالبان کے ہاتھوں اسکول میں قتلِ عام کے نتیجے میں سزائے موت کو بحال کیا گیا ہے۔

اخبار ’جورڈن ٹائمز‘ نے خبر دی ہے کہ حکومت اردن کے ترجمان نے بتایا کہ ملک میں ہلاکتوں کی تعداد میں آنے والے اضافے کو مد نظر رکھتے ہوئے سزائے موت کو بحال کیا جا رہا ہے۔ سزا کے بارے میں، ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ ’عبرت‘ کا باعث بنتی ہے۔

یہ فیصلہ لینے کے بارے میں، اُنھوں نے عوامی مطالبے اور اسلامی قانون کا بھی حوالہ دیا۔

گذشتہ ہفتےاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار داد منظور کی جس پر عمل درآمد لازم نہیں؛ جس کے حق میں، ریکارڈ 117 ملکوں نے ووٹ دیا۔

اقوام متحدہ کے مطابق، تقریبا ً 160 ملکوں نے سزائے موت پر بندش لگا رکھی ہے، یا پھر وہ اِس پر عمل درآمد نہیں کرتیں۔

اردن کے انسانی حقوق سے وابستہ گروپوں کے علاوہ غیر ملکی اداروں نے پھانسیوں کی سزا بحال کرنے پر تنقید کی ہے۔ سنہ 2006 کے بعد پہلی بار یہ انتہائی سزائیں دی گئیں۔

انسانی حقوق سے متعلق اردن کے قومی مرکز نےاتوار کو حکومت سے مطالبہ کیا کہ شہری اور سیاسی حقوق کے بارے میں اُس بین الاقوامی ضابطے پر دستخط نہ کیے جائیں، جس میں سزائے موت پر بندش عائد کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔