ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدے پر تمام فریقین کی جانب سے عملدرآمد کی نگرانی کرنے والے مشترکہ کمیشن کا پہلا اجلاس پیر کو ہو رہا ہے۔
پیر کے اجلاس میں ایران، امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، روس، جرمنی اور یورپی یونین کے اعلیٰ حکام ویانا میں دوبارہ ملیں گے، جہاں جولائی کو ایران جوہری معاہدہ طے پایا تھا۔
معاہدے کے تحت ایران کا جوہری پروگرام محدود کرنے کے عوض اس پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔
اتوار کو تمام فریقین کی طرف سے جولائی میں ہونے والے جوہری معاہدے کے ’اڈاپشن ڈے‘ یعنی ’یوم نفاذ‘ کے بعد یہ اجلاس ہو رہا ہے۔
کمیشن سال میں چار بار ملاقات کرے گا اور اراک میں بھاری پانی کے ریسرچ ری ایکٹر کے ڈیزائن میں تبدیلی، فردا جوہری تنصیبات اور پابندیاں اٹھائے جانے سے متعلق دیگر معاملات پر بحث کرے گا۔
معاہدے کی مبینہ خلاف ورزی کی سب سے پہلے اطلاع بھی کمیشن کو دی جائے گی اور اس سے نمٹا جائے گا۔
صدر براک اوباما نے اتوار کو امریکی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف تعزیرات ہٹانے کی تیاری شروع کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران نے اپنی طرف سے معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا ہے، جس میں سینٹری فیوجز کو ہٹانا، یورینیم کے ذخیرے میں کمی اور اراک میں جوہری ری ایکٹر کے بھاری پانی کی جگہ کنکریٹ بھرنے کا عمل شامل ہے جو سب اس بات کو یقینی بنائے گا کہ وہ جوہری ہتھیار نہ بنا سکے۔
صدر نے کہا کہ ’’میں اس اہم پیش رفت کا خیر مقدم کرتا ہوں اور اب ہمیں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ہمارے تحفظات کا ازالہ کرنے والی اس جامع قرارداد کے مکمل نفاذ کے اہم کام پر توجہ دینی ہے۔‘‘
یورپی یونین نے بھی اتوار کو اس قانون سازی کا عمل مکمل کر لیا جو اس کے رکن ممالک کو ایران کے خلاف پابندیاں ختم کرنے کی اجازت دے گا۔
لیکن جرمنی کے وزیر خارجہ فرینک والٹر نے پیش گوئی کی ہے کہ پابندیاں اس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک ایران یہ ثابت نہیں کر دیتا کہ وہ معاہدے میں اپنے حصے کی شرائط پر پورا اتر رہا ہے۔
ایران کے سرکاری ٹی وی پر بتایا گیا کہ تہران اپنے وعدوں کو پورا کرے گا۔ حکام نے گزشتہ ہفتے یہ تجویز دی تھی کہ ان کا ملک اس سال کے اواخر تک ان شرائط کو پورا کر سکے گا۔