درمیانے طبقے کو قائل کرنے میں، بائڈن کی کارکردگی بہتر رہی ہے۔ نائب صدر کو جو کام تفویض کیے گئے ہیں ان میں ایک کام یہ ہے کہ محنت کش اور درمیانے طبقے کے ووٹروں کے ساتھ رابطہ کیا جائے
اب جب کہ امریکہ کی صدارتی مہم آخری مہینوں میں داخل ہو گئی ہے، نائب صدر جو بائڈن صدر براک اوباما کے دوبارہ انتخاب میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ صدر اوباما ووٹروں کے ایک بہت اہم گروپ میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے اپنے نائب صدر پر انحصار کر رہے ہیں۔
بہت سے سیاسی تجزیہ کار متفق ہیں کہ بے روزگاری کی مسلسل اونچی شرح اور اقتصادی بحالی میں سست رفتاری کی وجہ سے صدر اوباما کے لیے نومبر میں دوبارہ صدر منتخب ہونا زیادہ مشکل ہو جائے گا۔
اقتصادی دشواریوں کا توڑ کرنے کے لیے، اوباما کی انتخابی مہم میں متوسط طبقے اور محنت کش طبقے کے ووٹروں پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ ان طبقوں کے بہت سے ووٹرز روایتی طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے سب سے زیادہ پُر جوش حامی ہوتے ہیں۔
ان لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے، مسٹر اوباما اپنے اس منصوبے پر زور دے رہے ہیں جس کے تحت متوسط طبقے کے ٹیکس کم کر دیے جائیں گے ۔ اور انھوں نے نائب صدر جو بائڈن پر زور دیا ہے کہ وہ ریپبلیکن صدارتی امیدوار مٹ رومنی کے منصوبے کو تنقید کا نشانہ بنائیں جس کے تحت معیشت میں جان ڈالنے کے لیے کاروباری اداروں کے ٹیکس کم کر دیے جائیں گے۔ مسٹر بائڈن نے کہا ہے کہ اس منصوبے میں نئی بات کیا ہے؟ یہ منصوبہ نہ صرف نیا نہیں ہے، بلکہ یہ منصفانہ بھی نہیں ہے ۔ ان کے نئے منصوبے کی قیمت درمیانے طبقے اور محنت کش طبقے کے لوگوں کو ادا کرنی پڑے گی۔
سینٹ لوئیس یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر جول گولڈ سٹین نے امریکہ میں نائب صدارت کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے ۔ وہ کہتےہیں کہ اکثر مسٹر اوباما کو محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹس سے رابطہ کرنے میں دشواری ہوتی ہے ۔ 2008 کے پرائمری انتخاب میں اس وقت کی سینیٹر ہلری کلنٹن کے ساتھ مقابلے میں انہیں مشکل پیش آئی تھی۔
گولڈ سیٹن کہتے ہیں کہ درمیانے طبقے کو قائل کرنے میں، بائڈن کی کارکردگی بہتر رہی ہے ۔ ان کا کہناہے کہ نائب صدر کو جو کام تفویض کیے گئے ہیں ان میں ایک کام یہ ہے کہ محنت کش اور درمیانے طبقے کے ووٹروں کے ساتھ رابطہ کیا جائے ۔ یہ وہ ووٹرز ہیں جنھوں نے 2008 کے انتخاب میں، سینیٹر اوباما کے مقابلے میں اس وقت کی سینیٹر کلنٹن کی زیادہ حمایت کی تھی، اور جن کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں انہیں اب بھی کچھ دشواری پیش آئی ہے ۔
ڈیموکریٹک عہدے دار اکثر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بائڈن کا بچپن مزدور گھرانے میں گذرا ۔ وہ ریاست پینسلوینیا کے مشرقی صنعتی شہر سکرنٹن میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد کو کبھی کبھی کام تلاش کرنے میں دشواری ہوتی تھی ۔ جب جو بائڈن دس برس کے ہوئے، تو ان کے والد ریاست دیلاوئیر کے شہر ولنگٹن میں منتقل ہو گئے جہاں ان کے حالات بس گذارے لائق تھے ۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بائڈن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایسے خاندانوں کے دکھ درد کو سمجھ سکتے ہیں جو اقتصادی مشکلات میں گرفتار ہیں ۔
ریاست منی سوٹا کے شہر منی پولس میں منگل کے روز انتخابی مہم میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ میں سب سے لمبے سفر کی بات کرتا رہتا ہوں ۔ آپ نے مجھے یہ کہتے سنا ہو گا کہ ایک باپ کے لیے سب سے لمبا سفر وہ ہوتا ہے جو اسے سیڑھیاں چڑھ کر اپنے بچے کے بیڈروم میں پہنچ کر یہ کہنے کے لیے کرنا پڑتا ہے کہ میری جان، مجھے بڑا دکھ ہے کہ اگلے سال تمہیں اپنا اسکول چھوڑنا پڑے گا ۔ تم اس لٹل لیگ ٹیم میں نہیں کھیل سکو گے۔ امی اور ابو، دونوں کی ملازمتیں ختم ہو گئی ہیں۔ بنک کا کہنا ہے کہ ہم اب اس گھر میں نہیں رہ سکتے ۔ تم جانتے ہوگے کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے ۔
لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کبھی کبھی بائڈن کی دلوں کو موم کرنے والی ان باتوں کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔ بعض اوقا ت وہ اپنی لکھی ہوئی تقریر سے ہٹ کر ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن کے نتائج اچھے نہیں ہوتے۔
چند روز ہوئے، ورجینیا میں انتخابی مہم کے دوران ، مٹ رومنی کی اقتصادی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے ، انھوں نے غلامی کے دور کا حوالہ دیا جو بعض افریقی امریکیوں اور بہت سے دوسرے لوگوں کے لیے قابلِ اعتراض تھا ۔ ان کے الفاظ تھےکہ رومنی بڑے بڑے بنکوں کو ایک بار پھر اپنے ضابطے خود تحریر کرنے دیں گے اور وال اسٹریٹ کی زنجیریں توڑ دیں گے ۔ وہ آپ سب کو پھر زنجیروں میں قید کر دیں گے ۔
تجزیہ کارجول گولڈ سٹین کہتے ہیں کہ بائڈن سے جو غلطی ہوئی، اس کے نتیجے میں مختصر مدت کےلیے لوگوں کی توجہ اوباما کی انتخابی مہم کے پیغام سے ہٹ گئی۔
اس کے باوجود، اوباما کی انتخابی مہم کی نظر میں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے ووٹروں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے، نائب صدر بائڈن بڑا قیمتی اثاثہ ہیں۔ وہ ملک بھر کی فیکٹروں، اسکولوں اور اسٹوروں میں مسلسل انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
بہت سے سیاسی تجزیہ کار متفق ہیں کہ بے روزگاری کی مسلسل اونچی شرح اور اقتصادی بحالی میں سست رفتاری کی وجہ سے صدر اوباما کے لیے نومبر میں دوبارہ صدر منتخب ہونا زیادہ مشکل ہو جائے گا۔
اقتصادی دشواریوں کا توڑ کرنے کے لیے، اوباما کی انتخابی مہم میں متوسط طبقے اور محنت کش طبقے کے ووٹروں پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ ان طبقوں کے بہت سے ووٹرز روایتی طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے سب سے زیادہ پُر جوش حامی ہوتے ہیں۔
ان لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے، مسٹر اوباما اپنے اس منصوبے پر زور دے رہے ہیں جس کے تحت متوسط طبقے کے ٹیکس کم کر دیے جائیں گے ۔ اور انھوں نے نائب صدر جو بائڈن پر زور دیا ہے کہ وہ ریپبلیکن صدارتی امیدوار مٹ رومنی کے منصوبے کو تنقید کا نشانہ بنائیں جس کے تحت معیشت میں جان ڈالنے کے لیے کاروباری اداروں کے ٹیکس کم کر دیے جائیں گے۔ مسٹر بائڈن نے کہا ہے کہ اس منصوبے میں نئی بات کیا ہے؟ یہ منصوبہ نہ صرف نیا نہیں ہے، بلکہ یہ منصفانہ بھی نہیں ہے ۔ ان کے نئے منصوبے کی قیمت درمیانے طبقے اور محنت کش طبقے کے لوگوں کو ادا کرنی پڑے گی۔
سینٹ لوئیس یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر جول گولڈ سٹین نے امریکہ میں نائب صدارت کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے ۔ وہ کہتےہیں کہ اکثر مسٹر اوباما کو محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹس سے رابطہ کرنے میں دشواری ہوتی ہے ۔ 2008 کے پرائمری انتخاب میں اس وقت کی سینیٹر ہلری کلنٹن کے ساتھ مقابلے میں انہیں مشکل پیش آئی تھی۔
گولڈ سیٹن کہتے ہیں کہ درمیانے طبقے کو قائل کرنے میں، بائڈن کی کارکردگی بہتر رہی ہے ۔ ان کا کہناہے کہ نائب صدر کو جو کام تفویض کیے گئے ہیں ان میں ایک کام یہ ہے کہ محنت کش اور درمیانے طبقے کے ووٹروں کے ساتھ رابطہ کیا جائے ۔ یہ وہ ووٹرز ہیں جنھوں نے 2008 کے انتخاب میں، سینیٹر اوباما کے مقابلے میں اس وقت کی سینیٹر کلنٹن کی زیادہ حمایت کی تھی، اور جن کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں انہیں اب بھی کچھ دشواری پیش آئی ہے ۔
ڈیموکریٹک عہدے دار اکثر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بائڈن کا بچپن مزدور گھرانے میں گذرا ۔ وہ ریاست پینسلوینیا کے مشرقی صنعتی شہر سکرنٹن میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد کو کبھی کبھی کام تلاش کرنے میں دشواری ہوتی تھی ۔ جب جو بائڈن دس برس کے ہوئے، تو ان کے والد ریاست دیلاوئیر کے شہر ولنگٹن میں منتقل ہو گئے جہاں ان کے حالات بس گذارے لائق تھے ۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بائڈن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایسے خاندانوں کے دکھ درد کو سمجھ سکتے ہیں جو اقتصادی مشکلات میں گرفتار ہیں ۔
ریاست منی سوٹا کے شہر منی پولس میں منگل کے روز انتخابی مہم میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ میں سب سے لمبے سفر کی بات کرتا رہتا ہوں ۔ آپ نے مجھے یہ کہتے سنا ہو گا کہ ایک باپ کے لیے سب سے لمبا سفر وہ ہوتا ہے جو اسے سیڑھیاں چڑھ کر اپنے بچے کے بیڈروم میں پہنچ کر یہ کہنے کے لیے کرنا پڑتا ہے کہ میری جان، مجھے بڑا دکھ ہے کہ اگلے سال تمہیں اپنا اسکول چھوڑنا پڑے گا ۔ تم اس لٹل لیگ ٹیم میں نہیں کھیل سکو گے۔ امی اور ابو، دونوں کی ملازمتیں ختم ہو گئی ہیں۔ بنک کا کہنا ہے کہ ہم اب اس گھر میں نہیں رہ سکتے ۔ تم جانتے ہوگے کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے ۔
لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کبھی کبھی بائڈن کی دلوں کو موم کرنے والی ان باتوں کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔ بعض اوقا ت وہ اپنی لکھی ہوئی تقریر سے ہٹ کر ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن کے نتائج اچھے نہیں ہوتے۔
چند روز ہوئے، ورجینیا میں انتخابی مہم کے دوران ، مٹ رومنی کی اقتصادی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے ، انھوں نے غلامی کے دور کا حوالہ دیا جو بعض افریقی امریکیوں اور بہت سے دوسرے لوگوں کے لیے قابلِ اعتراض تھا ۔ ان کے الفاظ تھےکہ رومنی بڑے بڑے بنکوں کو ایک بار پھر اپنے ضابطے خود تحریر کرنے دیں گے اور وال اسٹریٹ کی زنجیریں توڑ دیں گے ۔ وہ آپ سب کو پھر زنجیروں میں قید کر دیں گے ۔
تجزیہ کارجول گولڈ سٹین کہتے ہیں کہ بائڈن سے جو غلطی ہوئی، اس کے نتیجے میں مختصر مدت کےلیے لوگوں کی توجہ اوباما کی انتخابی مہم کے پیغام سے ہٹ گئی۔
اس کے باوجود، اوباما کی انتخابی مہم کی نظر میں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے ووٹروں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے، نائب صدر بائڈن بڑا قیمتی اثاثہ ہیں۔ وہ ملک بھر کی فیکٹروں، اسکولوں اور اسٹوروں میں مسلسل انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔