زینب قتل کیس میں شاہد مسعود کے دعوے مسترد: جے آئی ٹی رپورٹ

فائل فوٹو

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملزم عمران علی کی سیاسی وابستگی کا بھی ثبوت نہیں ملا جب کہ قصور میں پرتشدد چائلڈ پورنوگرافی سے متعلق الزام کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں۔

پنجاب کے ضلع قصور میں زیادتی کے بعد قتل کی گئی کم سن بچی زینب کے قتل کیس میں ایک ٹی وی پروگرام کے میزبان کے انکشافات کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میں ٹی وی میزبان کے 18 انکشافات کو الزامات قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔

ٹی وی اینکر شاہد مسعود نے گزشتہ ماہ اپنے پروگرام میں انکشاف کیا تھا کہ زینب قتل کیس کے مرکزی ملزم عمران علی کے 37 بینک اکاؤنٹس ہیں اور وہ بچوں کی نازیبا ویڈیوز بنانے والے ایک بین الاقوامی گروہ کا کارندہ ہے۔

ڈاکٹر شاہد مسعود نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ملزم کو ایک بڑی سیاسی شخصیت اور رکنِ اسمبلی کی پشت پناہی حاصل ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اینکر پریسن کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم عمران کا کسی بینک میں کوئی اکاؤنٹ نہیں ملا۔

تاہم شاہد مسعود کی جانب سے اپنے الزامات درست ہونے پر اصرار کے بعد سپریم کورٹ نے ان کے دعوؤں کا نوٹس لیتے ہوئے مزید تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی جس نے اپنی رپورٹ جمعرات کو عدالت میں جمع کرادی ہے۔

کمیٹی کے سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن تھے جب کہ انٹیلی جنس بیورو کے جوائنٹ ڈائریکٹر انور علی اور اسلام آباد پولیس کے ایڈیشنل آئی جی عصمت اللہ جونیجو بھی کمیٹی میں شامل تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملزم کے کسی بین الاقوامی گروہ کا متحرک رکن ہونے کے الزامات بے بنیاد ہیں جب کہ عمران علی پر بیرونِ ملک سے رقم وصول ہونے کے الزامات بھی ثابت نہیں ہوسکے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملزم عمران علی کی سیاسی وابستگی کا بھی ثبوت نہیں ملا جب کہ قصور میں پرتشدد چائلڈ پورنوگرافی سے متعلق الزام کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں۔

کمیٹی نے تین بار ڈاکٹر شاہد مسعود کا اپنی صفائی دینے کا موقع فراہم کیا لیکن وہ ایک بار بھی ملزم عمران پر لگائے گئے الزامات کو ثابت نہ کرسکے۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اینکر پرسن کے اس دعوے کے بھی کوئی شواہد نہیں ملے کہ بعض لوگ ملزم کو ذہنی مریض ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ملزم غریب ہے اور اس کے پاس کروڑوں روپے کی رقم کی موجودگی کے دعوے کا کوئی ثبوت نہیں۔ ملزم کے کسی بااثر شخصیت سے نہ تو روابط ہیں اور نہ ہی ملزم کو کسی وفاقی وزیر کا تعاون حاصل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملزم نے نہ تو زینب کی تصویر اتاری اور نہ کسی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی۔

صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

پانچ روز بعد زینب کی لاش کچرے کے ایک ڈھیر سے ملی تھی جسے زیادتی کے بعد گلا دبا کر قتل کیا گیا تھا۔

پنجاب پولیس نے 23 جنوری کو زینب کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے ملزم عمران علی کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا جو اسی علاقے کا رہائشی تھا۔

لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے مقدمے کی تیز رفتاری سے سماعت کرنے کے بعد گزشتہ ماہ عمران علی کو چار مرتبہ سزائے موت سنائی تھی۔

مجرم عمران علی نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کی سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔