سانحۂ ساہیوال پر کسی نتیجے پہ نہیں پہنچے: جے آئی ٹی سربراہ

Your browser doesn’t support HTML5

ایڈیشنل آئی جی پنجاب پولیس اور تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ اعجاز شاہ نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ اتنے بڑے واقعے کی تحقیقات تین روز میں مکمل کرلی جائیں۔

سانحۂ ساہیوال کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ نے کہا ہے کہ ان کی ٹیم تاحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے اور ان کی تحقیقات جاری رہیں گی۔

جے آئی ٹی کے ارکان نے منگل کو مسلسل دوسرے روز بھی ساہیوال میں جائے واقعہ کا معائنہ کیا۔

معائنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی پنجاب پولیس اور تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ اعجاز شاہ نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ اتنے بڑے واقعے کی تحقیقات تین روز میں مکمل کرلی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ فی الحال وہ صرف شواہد جمع کر رہے ہیں اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچ رہے کیوں کہ وہ چاہتے ہیں کہ پہلے تمام شواہد اور بیانات جمع کرلیے جائیں اور وہ تمام چیزیں تصدیق ہو کر آجائیں جو لیبارٹریز بھیجی گئی ہیں۔

اعجاز شاہ نے کہا کہ جے آئی ٹی انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت بنی ہے جو تحقیقات مکمل کرکے چالان پیش کرنے کے لیے 30 دن کی مہلت دیتا ہے۔

واضح رہے کہ حکومتِ پنجاب نے سانحے کی تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی جے آئی ٹی کو تحقیقات مکمل کرنے کے لیے 72 گھنٹوں کا وقت دیا تھا جو منگل کی شام پانچ بجے ختم ہو جائے گا۔

یہ توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ جے آئی ٹی اپنی رپورٹ آج کسی وقت وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو پیش کردے گی جنہوں نے ایک صوبائی وزیر کے مطابق رپورٹ پر غور کے لیے اعلیٰ سطح کا ایک اجلاس بھی طلب کر رکھا ہے۔

لیکن ساہیوال میں صحافیوں سے گفتگو میں جے آئی ٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ وہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو بھی یہی بتائیں گے کہ ابھی جے آئی ٹی کسی نتیجے پر نہیں پہنچی اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اتنے بڑے واقعے کی تحقیقات تین روز میں مکمل کرلی جائیں۔

ایک صحافی کے اس سوال پر آپ ہمیں اپنی تحقیقات کے ابتدائی نتائج ہی بتادیں، اعجاز شاہ نے کہا کہ تاحال کوئی نتائج اخذ نہیں کیے اور انہوں نے صرف جائے واقعہ کا معائنہ کیا ہے اور بیانات قلم بند کیے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ محکمۂ انسدادِ دہشت گردی کے چھ اہلکار حکام کی تحویل میں ہیں جن کے بیانات ریکارڈ کرلیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس واقعہ میں مس ہینڈلنگ ہوئی ہے، سائنسی شواہد اکھٹے جا رہے ہیں، چیزیں واضح ہونے تک کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

وزیرِ اعلٰی پنجاب عثمان بزدار نے گزشتہ روز صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں ہی ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔

اس سے قبل وزیرِ قانون پنجاب راجہ بشارت نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ وزیرِ اعلٰی پنجاب نے جے آئی ٹی کی رپورٹ ملنے کے فوری بعد اعلٰی سطح کا اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں ان کے بقول جے آئی ٹی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے گا۔

راجہ بشارت کا کہنا کہ تھا واقعے میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے اور متاثرین کو انصاف ملے گا۔

"یہ واقعہ دہشت گردی ہے یا نہیں، جے آئی ٹی رپورٹ آنے سے پہلے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اگر حکومت جے آئی ٹی رپورٹ سے مطمئن نہ ہوئی تو اُس کا فیصلہ وزیرِ اعلٰی کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ مطمئن نہ ہونے کی صورت میں وزیرِ اعلٰی پنجاب عثمان بزدار جوڈیشل کمیشن بنادیں کیوں کہ یہ ان کی صوابدید پر ہو گا۔"

انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شریں مزاری نے کہا ہے کہ 16 افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، جن میں سے 10 وردی والے اور چھ بغیر وردی کے اہل کار ہیں۔

سانحے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ

سانحۂ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس سے جواب طلب کرلیا ہے۔

درخواست پیر کو دائر کی گئی تھی جس کی سماعت منگل کو لاہور ہائی کورٹ میں ہوئی۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل صفدر شاہین پیرزادہ نے مؤقف اختیار کیا کہ سانحہ کی اصل حقیقت جاننے کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔

اس پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار شمیم نے ریمارکس دیے کہ یہ مفاد عامہ کا مسئلہ ضرور ہے لیکن بظاہر یہ اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے درخواست گزار کو وفاقی حکومت سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی جب کہ آئی جی پنجاب کو 24 جنوری کو طلب کرلیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی پنجاب (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں نے پنجاب کے وسطی ضلع ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں خلیل، ان کی اہلیہ نبیلہ، ان کی 13 سالہ بیٹی اریبہ اور کار ڈرائیور ذیشان ہلاک ہوگئے تھے۔

فائرنگ سے کار میں سوار 10 سالہ عمر خلیل، سات سالہ بچی منیبہ اور پانچ سالہ ہادیہ کو بھی زخم آئے تھے۔

عینی شاہدین کے مطابق اس واقعے کے بعد بغیر نمبر پلیٹ کی ایلیٹ فورس کی گاڑی زندہ بچ جانے والے بچوں کو پہلے ساتھ لے گئی تھی جنہیں بعد میں پولیس نے قریبی پیٹرول پمپ پر چھوڑ دیا تھا۔

پولیس نے ابتداً دعویٰ کیا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جنہیں مزاحمت پر گولیاں ماری گئیں۔ تاہم واقعے کی وقت کی ویڈیوز اور بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات نے پولیس کے دعووں کی نفی کردی تھی۔

واقعے کی خبریں نشر ہونے کے بعد اس پر ملک بھر میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے حکومت سے واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی عام افراد واقعے کے ذمہ داران کو سخت سزا دینے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔