کینیڈی کا شاندار ورثہ، خراج عقیدت

بروکلین، میساچیوسٹس: جان ایف کینیڈی کا گھر

صدر کینیڈی کے دورِ اقتدار میں عطارد پر بھیجنے کے مشنز کی ابتدائی کامیابی نے اُس عشرے میں انسان کے چاند پر پہنچنے کی راہ ہموار کی، جو اب بھی اُن کی کامیابیوں میں سرِ فہرست ہے
جان ایف کینیڈی نے امریکہ کے لیے جو نئے افق دریافت کیے اُن میں ایک اہم حصہ خلا کی وسعتوں کو سر کرنا بھی تھا۔

صدر کینیڈی کے دورِ اقتدار میں عطارد (مَرکری) پر بھیجنے کے انسانوں کے مشنز کی ابتدائی کامیابی نے اُس عشرے میں انسان کے چاند پر پہنچنے کی راہ ہموار کی، جو اب بھی اُن کی کامیابیوں میں سرِ فہرست ہے۔

کیتھلین کینیڈی ٹاؤن سینڈ، رابرٹ کینیڈی کی سب سے بڑی اولاد اور صدر کینیڈی کی بھتیجی ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ، ’یہ اِس لیے نہیں تھا کہ میں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں، بلکہ یہ تھا کہ آپ کو یہ ضرور کرنا چاہیئے، کیونکہ یہ کٹھن اور مشکل ہے۔ ہم چاند پر جا رہے ہیں۔ کیونکہ، یہ مشکل ہے۔ اور اس میں ہماری بہترین توانائیاں صرف ہوجائیں گے۔ مگر ایسا کرنے کے بعد ہم ایک بہترین قوم بن کر اُبھریں گے‘۔

اپنے دورِ اقتدار میں، صدر کینیڈی کو جو مسائل پیش آئے اُن میں سب سے تکلیف دہ مسئلہ شہری حقوق کا تھا۔

اپنی موت سے چند ماہ پہلے کینیڈا نے کانگریس سے اس سلسلے میں اقدام کے لیے تازہ اپیل کی۔

اُن کے بقول، ہمیں ابتدائی طور پر ایک اخلاقی مسئلے کا سامنا ہے۔ یہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا انجیل کے اقتباسات اور اُتنا کی واضح جتنا کہ امریکی آئین۔ اصل سوال یہ ہے آیا تمام امریکیوں کو یکساں حقوق اور یکساں مواقع دیے جا رہے ہیں‘۔

شہری حقوق کے لیے ہیرس وافرڈ صدر کنیڈی کے مشیر تھے۔

اُن کے الفاظ میں: ’ہم نہیں جانتے کہ وہ کس عظمت تک پہنچ سکتے تھے۔ ہم نے اُس شخصیت کو کھودیا جو میرے نظریے کے مطابق، عظمت کی بلندیوں کی جانب رواں دواں تھے۔ اور اُس وقت جب ہمیں اُن کی ضرورت تھی‘۔


اپنے انتقال سے چند ہی ماہ پہلے، صدر کینیڈی نے چند روز اپنے آبائی وطن آئرلینڈ میں گزارے۔

کیتھلین کہتی ہیں، ’جب صدر کینیڈی برلن گئے تو وہ آئرلینڈ بھی گئے اور وہ کہا کرتے تھے کہ یہ اُن کی زندگی کے چار خوش گوار ترین دِن تھے‘۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’اِس سعی میں ہم جس قوت، جس عقیدے اور جس جان نثاری کو شامل کر رہے ہیں، وہ ہمارے ملک کو منور کریں گی، اور اُن سب کو جو اِس میں خدمات انجام دے رہے ہیں، اور اِس شعلے کی چمک پوری دنیا کو حقیقتاً روشن کردے گی‘۔

جان ایف کینیڈی کے اِن الفاظ کی گونج اب بھی سنائی دیتی ہے۔

اور اُن کی قبر پر روشن شعلہ اب بھی اُن لوگوں کے لیے روشنی کا منارہ ہے جو دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔